ہر سال کی طرح اس سال بھی نئے رنگ اور انداز کی پگڑی پہنے وزیر اعظم نے یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پرانے نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس (ترقی)، سب کا وشواس (اعتماد) میں سب کا پریاس یعنی سب کی کوشش کو بھی جوڑ دیا۔ انہوں نے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر ہندوستان سے محبت کرنے والے امن پسند لوگوں کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے جہاں ملک کی فوج، سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خاں، امبیڈکر اور سردار پٹیل وغیرہ کو یاد کیا وہیں انہوں نے ملک کے پہلے وزیر اعظم نہرو کو بھی یاد کیا اور کہا کہ قوم ان عظیم شخصیات قرضدار ہے۔ ویسے وزیر اعظم نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے خطاب میں ملک کی خرابیوں کے حوالہ سے گزشتہ 70 سالوں کا ہی ذکر کیا۔
Published: undefined
وزیر اعظم خود بھی زیادہ جوش میں نظر نہیں آئے اور اپنے خطاب سے موجود مہمانوں میں بھی جوش نہیں بھر پائے جس کی وجہ شاید کا تقریر کو پرچے پر دیکھ کر پڑھنا رہا ہوگا۔ ان کے خطاب میں زیادہ تر ان منصوبوں کا ذکر تھا جو مختلف وزارتوں میں چل رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کچھ باتوں کا جو ذکر کیا اس سے یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ یہ کئی سالوں سے انہوں نے کیوں نہیں کہی جیسے انہوں نے کہا کہ اب کھیلوں کو تعلیم کے مرکزی نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بات اولمپک کھیلوں کے حالیہ اختتام کی وجہ سے کہی لیکن اس بات کو تو پہلے ہی سمجھنے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اولمپک میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کا استقبال تالی بجا کر کیا اور کہا کہ ’’ان کھلاڑیوں نے ہمارا دل ہی نہیں جیتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔‘‘
Published: undefined
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ کورونا کے دور میں جس انداز میں ہندوستان نے اس وبا کا سامنا کیا وہ قابل تعریف ہے لیکن ہمیں اپنی پیٹھ تھپ تھپانی نہیں چاہئے۔ کورونا کی وبا کی دوسری لہر کے دوران حکومت کی خراب کارکردگی پر پوری دنیا میں سوال کھڑے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی وزیر اعظم نے حکومت کی کارکردگی کی تعریف کی۔ ایک جانب پارلیمنٹ میں حکومت یہ کہتی ہے کہ ملک میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کسی کی موت نہیں ہوئی دوسری جانب وزیر اعظم نئے آکسیجن پلانٹ لگانے کی بات کر رہے ہیں! وزیر عظم نے اپنی تقریر میں یہ ضرور اعتراف کیا کہ ہندستان میں دوسرے ممالک کے مقابلہ طبی وسائل کم ہیں۔
Published: undefined
مغل شہنشاہ شاہجہاں کے بنوائے لال قلعہ سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے نئے ہندوستان کی تشکیل کی بات کی اور 25 سال کے لئے ’امرت کال‘ کے منصوبہ کا ذکر کیا لیکن انہوں نے 75 سال پہلے ہونے والی ملک کی تقسیم کی یادوں کو پھر سے تازہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ انہوں خطاب میں بتایا کہ کل ہی حکومت نے ایک جذباتی فیصلہ لیا ہے کہ تقسیم کی یاد میں 14 اگست کو ’تقسیم کی ہولناک یادوں کے دن‘ کے طور پر ہر سال منایا جائے گا۔
Published: undefined
وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کے نئے عہد کا آغاز ہو گیا ہے اور اس نئے عہد کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور کچھ ہی سالوں میں ہمیں اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہوگا۔ کئی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر انہوں نے ریزرویشن کے مدے کو بھی بھنانے کی کوشش کی اور کہا کہ ملک کی ترقی میں کوئی پیچھے نہیں رہنا چاہیئے۔ اس موقع پر انہوں نے شمال مشرق، کشمیر، لداخ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ دور کنکٹیوٹی (روابط) کا دور ہے جس میں دلی کنیکٹوٹی کے ساتھ زمینی کنیکٹیوٹی بھی ضروری ہے۔
Published: undefined
وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے دوران اقتصادی چیلنجز کا ذکر ضرور کیا لیکن ہمیشہ کی طرح نئی اصلاحات بھی پیش کیں۔ اس موقعہ پر انہوں نے سب سے بڑے مسئلہ کسانوں کے احتجاج کا ذکر نہ کرتے ہوئے صرف یہ ذکر کیا کہ حکومت کسانوں کے لئے کیا کر رہی ہے۔ چھوٹے کسانوں کی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے انہیں کسانوں کے احتجاج سے دور رکھنے کی کوشش کی یعنی کسانوں کے احتجاج میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے چھوٹے کسانوں کو مضبوط بنانے کی تو بات کی لیکن جو کسان دہلی کی سرحدوں پر گزشتہ 9 مہینوں سے احتجاج کر رہے ہیں، ان کے لئے ایک لفظ نہیں کہا۔
Published: undefined
وزیر اعظم نے آخر میں چند لائن پڑھیں کہ ترقی کا یہی صحیح وقت ہے اور اس سے پہلے انہوں نے بہت خوبصورتی سے دفعہ 370، جی ایس ٹی، رام جنم بھومی، سرجیکل اسٹرائک وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوستان بدل رہا ہے، ہندوستان بدل سکتا ہے، ہندوستان کڑے سے کڑے فیصلے لینے سے چوکتا نہیں ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے بہت سے منصوبوں کا ذکر کیا لیکن وہ لوگوں میں وہ جوش نہیں بھر پائے جو ہر بار بھرتے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined