نئی دہلی: مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے دائر کی گئی مفاد عاملہ کی عرضی قابل سماعت نہیں ہے اور پارلیمنٹ کو یکساں سول کوڈ سے متعلق قانون بنانے کی ہدایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ عرضی میں طلاق کی بنیادوں کو تمام مذاہب کے لئے یکساں کرنے سے لے کر نان نفقہ، شادی کی عمر اور وراثت سے متعلق حقوق میں یکسانیت لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرضی کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے 5 ستمبر کو جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔
Published: undefined
مرکزی وزارت قانون کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون بنانے کے لیے ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔ اس معاملے میں پی آئی ایل یکساں سول کوڈ کے لیے قانون سازی سے متعلق ہے اور یہ عرضی قابل سماعت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ 2020 سے اب تک ایسی پانچ عرضیون پر نوٹس جاری کر چکا ہے۔ یوں تو مختلف مذاہب کے پرسنل لاز کو یکجا کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں الگ الگ عرضیاں دائر کی گئی ہیں، تاہم تمام عرضیوں کا مواد مجموعی طور پر کامن سول کوڈ سے متعلق ہے۔
Published: undefined
دائر کی گئی ایک عرضی میں کہا گیا ہے کہ طلاق کے معاملے میں سبھی کے لئے ایک ہی بنیاد ہونی چاہیے۔ ایک اور درخواست میں کہا گیا ہے کہ نان نفقہ کے معاملے میں یکساں بنیاد ہونی چاہیے اور گزارہ کے لیے دی جانے والی یکمشت رقم کے معاملہ میں یکسانیت لانی چاہئے۔ مذہب اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی عرضی میں کہا گیا ہے کہ ایڈاپشن اینڈ گارجین شپ ایکٹ کو ملک بھر میں تمام مذاہب کے لیے یکساں صنفی غیر جانبدار، مذہب کو غیر جانبدار بنایا جائے۔ گود لینے اور سرپرستی ایکٹ کی کو یکساں بنانے اور شادی کی عمر برابر کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔
Published: undefined
مرکزی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں ایسا فیصلہ جاری نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون بنائے۔ یہ ایک پالیسی ساز فیصلہ ہے اور منتخب نمائندے اس پر فیصلہ کرتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 44 یکساں سول کوڈ کے بارے میں بات کرتا ہے اور یہ پالیسی کا ہدایتی اصول ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ریاست یونیفارم سول کوڈ کے لیے کوشش کرے گی۔ اس کے پیچھے ملک میں سیکولرازم کے حصول کا مقصد ہے۔ اس وقت مختلف مذاہب کے پرسنل لاز ہیں جنہیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانا ہے۔ یہ معاملہ بہت حساس اور اہمیت کا حامل ہے اور اس موضوع اور پرسنل لاء کا معاملہ گہرائی سے مطالعہ کا متقاضی ہے۔
Published: undefined
وزارت نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اس بارے میں چوکس اور محتاط ہے اور 21 ویں لا کمیشن اس معاملے کو تفصیل سے دیکھ رہا ہے۔ اس معاملے میں تمام فریقین سے جواب مانگا گیا لیکن کمیشن کی مدت 31 اگست 2018 کو ختم ہو گئی۔ اب یہ معاملہ 22ویں لا کمیشن کے سامنے آئے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز