متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک رفتہ رفتہ ایک بڑی اور ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جب اس تحریک کا آغاز ہوا تھا تو کسی کو بھی اس کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ یہ احتجاج اتنا لمبا چلے گا اور اس کا دائرہ اس قدر بڑھتا جائے گا اور یہ بھی کہ اس میں تمام تر شعبہ ہائے حیات کے لوگ شامل ہوتے جائیں گے۔ ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ یہ احتجاج کچھ دنوں تک چلے گا اس کے بعد یا تو حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جائے گا یا پھر احتجاج اپنی موت آپ مر جائے گا۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
حکومت کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ احتجاج اس قدر وسیع حلقوں تک پھیل جائے گا اور دھرنے پر بیٹھے کسان اٹھنے کا نام نہیں لیں گے۔ اسی لیے جہاں کسان اپنے اس مطالبے پر ڈٹے رہے کہ حکومت تینوں متنازعہ قانون واپس لے وہیں حکومت بھی اس بات پر اڑی رہی کہ قوانین واپس نہیں ہوں گے۔ البتہ وہ اس میں ترمیم کرنے کو تیار ہے۔ بلکہ اب بھی لگتا ہے کہ حکومت کسی خوش فہمی کا شکار ہے اور وہ یہ سمجھے بیٹھی ہے کہ آج نہیں تو کل کسان تھک جائیں گے اور اٹھ کر خاموشی سے اپنے اپنے گھروں کا راستہ ناپیں گے۔ اسی لیے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا ہے کہ اگر کسان حکومت کی تجویز پر گفتگو کرنے کے لیے تیار ہیں تو حکومت بھی بات چیت کرنے کے لیے آمادہ ہے۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
حکومت کی تجویز کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ زرعی قوانین کو ڈیڑھ سال تک کے لیے معطل کر دیا جائے۔ کسان رہنماؤں نے اس تجویز کو پہلے ہی سرے سے مسترد کر دیا ہے۔ وہ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ نہ تو ان میں ترمیم کے حق میں ہیں اور نہ ہی معطل رکھنے کے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ انھیں منسوخ کر دیا جائے۔ کسانوں نے اب یہ طے کر لیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ تب تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ قوانین منسوخ نہ ہو جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اپنا راستہ خود ہی تنگ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس نے کارپوریٹ اداروں یعنی بڑی پرائیویٹ کمپنیوں سے خوب پیسے لیے ہیں اور اسی لیے اس نے یہ قوانین بنائے تاکہ ان کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کسانوں کا مطالبہ تسلیم کرتی ہے تو پرائیویٹ کمپنیاں ناراض ہو جائیں گی اور پھر وہ حکومت کے لیے اپنے خزانے کا منہ نہیں کھولیں گی۔ گویا حکومت کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر عام زبان میں کہیں تو یہ کہ کسان تحریک اس کے لیے گلے کی ہڈی اور سانپ کے منھ کی چھچھوندر بنتی جا رہی ہے۔ ہڈی گلے میں اس طرح اٹک گئی ہے کہ وہ نہ اندر جا رہی ہے اور نہ باہر۔ یا پھر اس کی حالت اس سانپ کی سی ہو گئی ہے جس نے چھچھوندر نگلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ایسے میں اگر وہ اسے اگلتا ہے تو اس کے اندھا ہو جانے کا خطرہ ہے اور اگر نگلتا ہے تو اس کی جان چلی جانے کا اندیشہ ہے۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
لیکن اگر ہم کسانوں کے عزائم کو دیکھیں تو ان میں ذرا بھی لغزش نظر نہیں آتی۔ بلکہ دن بدن ان کے ارادوں میں مزید مضبوطی آتی جا رہی ہے۔ ارادوں میں مضبوطی کا جذبہ بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت کی باتوں سے پیدا ہو رہا ہے۔ وہ جس طرح تحریک میں یکے بعد دیگرے اقدامات سے جان پھونکتے آرہے ہیں اس سے یہ نہیں لگتا کہ وہ تھکنے والے ہیں۔ ان کا ذہن بڑا زرخیز ہے۔ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی سوال پر مشتعل نہیں ہوتے اور نہ کسی سوال کا جواب دینے کے لیے انھیں سوچنا پڑتا ہے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہر سوال کا جواب ان کی نوک زبان پر ہے۔ ادھر سوال ختم نہیں ہوا کہ ان کا جواب شروع ہو جاتا ہے۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
پہلے تو حکومت نے یہ سمجھا تھا کہ کسان یخ بستہ سردی برداشت نہیں کر پائیں گے اور کیمپوں کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ پھر انتہائی سردی کے موسم میں کئی روز تک بارشوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس وقت حکومت نے یہ سوچا تھا کہ اب تو یہ سب بھاگ جائیں گے۔ بارش میں کب تک بھیگیں گے۔ لیکن اگر چہ ان کے خیمے اکھڑ گئے۔ ان کے بستر گیلے ہو گئے۔ ان کے لحاف اور کمبل پانی پانی ہو گئے لیکن یہ سب ناموافق باتیں بھی ان کے عزائم کو توڑ نہیں سکیں۔ وہ ڈٹے رہے اور موسم کی سختی کو بھی پسینہ آگیا اور اس نے بھی اپنا رخ بدل لیا۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
اب حکومت یہ سوچتی ہے کہ چلو کسانوں نے سب کچھ سہہ لیا گرمی کیسے سہیں گے۔ اب تو بھاگ ہی جائیں گے۔ لیکن راکیش ٹکیت کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ ان تمام اشیا کو دکھا رہے ہیں جن کی مدد سے وہ گرمی کا مقابلہ کریں گے۔ سائبان کے طور پر ایسی مخصوص چٹائیاں لائی جا رہی ہیں جو گرمی کو جذب کرکے اپنے نیچے کے موسم کو خوشگوار بنا دیتی ہیں۔ ٹکیت نے بتایا کہ اب جبکہ گرمی شروع ہوگی تو ان چٹائیوں کا سائبان بنایا جائے گا۔ اس کا کام شروع بھی ہو چکا ہے۔ اسٹیج کے سامنے وسیع سائبان بنا دیا گیا ہے۔ خیموں میں کولر لگائے جائیں گے۔ جہاں ضرورت ہوگی وہاں اے سی بھی لگیں گے۔ انھوں نے یہ باتیں غازی آباد بارڈر پر کہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بجلی اترپردیش کی حکومت دے گی اور اگر وہ نہیں دے گی تو ہم دہلی حکومت سے لیں گے۔ لیکن اگر دہلی حکومت بھی بجلی دینے سے کترائے گئی تو ہم لوگ جنریٹر کا استعمال کریں گے۔ لیکن جائیں گے کہیں نہیں۔ یہیں رہیں گے۔ گویا وہ لوگ حکومت کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ جگہ جگہ کسان مہا پنچایتیں بھی ہو رہی ہیں جن میں لاکھوں لاکھ لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی بھی ان پنچایتوں میں حصہ لے رہی ہیں اور اعلان کر رہی ہیں کہ وہ کسانوں کی لڑائی نہیں چھوڑیں گی۔ اس وقت تک لڑتی رہیں گی جب تک کہ قوانین واپس نہ ہو جائیں۔ حکومت کسانوں کے ساتھ اپوزیشن رہنماؤں کی یکجہتی کو دیکھ کر گھبرائی ہوئی ہے۔ اسی لیے وہ الزام پر الزام لگا رہی ہے کہ اپوزیشن رہنما کسانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ گمراہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ کسانوں کے جائز مطالبے کی حمایت کر رہے ہیں۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
اس تحریک کا ایک اور خوشگوار پہلو ہے اور وہ یہ ہے کہ مغربی اترپردیش میں بی جے پی نے مسلمانوں اور جاٹوں کے درمیان نفرت کی جو خلیج پیدا کر دی تھی اس تحریک نے اس کو پاٹ دیا ہے۔ اب جاٹوں کو بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ انھوں نے غلط کیا تھا۔ بی جے پی کے بہکاوے میں آکر انھوں اجیت سنگھ جیسے جاٹ لیڈر کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور ان کو ہرا کر بی جے پی کو جتا دیا تھا۔ اجیت سنگھ کے مقابلے میں بی جے پی کے سنجیو بالیان کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ لیکن اب ان کی بھی مٹی پلید ہو رہی ہے۔ جہاں جاٹ اور مسلمان ایک ہی منچ پر آگئے ہیں وہیں کسانوں کے گاؤوں میں بی جے پی لیڈروں کو گھسنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ پہلے بی جے پی سے استعفیٰ دیں پھر گاؤوں میں آئیں۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
سنجیو بالیان کے خلاف تو زبردست احتجاج ہوا۔ حالانکہ ان کے آدمیوں نے کسان تحریک کے حق میں نعرہ لگانے والوں پر حملہ کیا اور انھیں زخمی کیا لیکن اس سے حالات اور بھی بگڑ گئے۔ اب تو بی جے پی لیڈران اپنے حلقوں میں جاتے ہوئے بھی ڈر رہے ہیں۔ امت شاہ نے ان لوگوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں جائیں اور کسانوں کو سمجھائیں کہ یہ قوانین ان کے فائدے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ لیکن کسانوں کا غصہ دیکھ کر ان کو ان کے درمیان جانے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے۔ سنجیو بالیان کا جو حشر ہوا اس کے پیش نظر کوئی بھی بھاجپائی نیتا جاتے ہوئے گھبرا رہا ہے۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
بہر حال معاملہ کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ کسان اٹھنے والے نہیں ہیں۔ پنجاب، ہریانہ اور مغربی یو پی سے نکل کر یہ تحریک دوسری ریاستوں میں بھی داخل ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت ہوش کے ناخن لیتی ہے یا اپنے تکبر کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Feb 2021, 9:11 PM IST