مظفرنگر کے گاؤں کیتھوڑہ کے رہائشی جمیل احمد اب 72 سال کے ہو چکے ہیں۔ وہ کسی زمانے میں شادیوں میں باجا بجایا کرتے تھے۔ باجے کو مقامی لوگ پی پی بھی کہتے ہیں، تو جمیل احمد کو پی پی والا بھی کہا جاتا تھا۔ جمیل احمد کہتے ہیں کہ وہ شادیوں میں باجا بجاکر جب گھر پہنچتے تھے تو انہیں اندر سے کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا تھا کیونکہ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن بقول جمیل انہیں معاشرہ میں عزت و احترام ان کے بیٹوں نے دلایا۔ ان کا ایک بیٹا گاؤں کا پردھان ہے اور دوسرا آئی ای ایس (انڈین انجینئرنگ سروسز) میں افسر۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
جمیل احمد کہتے ہیں، ’’میرا خواب پورا ہو گیا۔ بڑے بیٹے نے گھر چلانے کی ذمہ داری اپنے سر پر لے لی اور چھوٹے بیٹے کے لیے تعلیم میں آسانی پیدا ہو گئی۔ اب بڑے بڑے لوگ عزت سے پیش آتے ہیں۔‘‘ جمیل احمد کا گاؤں کیتھوڑہ دہلی-پوڑی شاہراہ پر واقع ہے اور یہاں کئی بینڈ باجے کی دکانیں ہیں۔ یہاں کا پاپولر بینڈ کافی مشہور ہے اور اسے محبوب عالم چلاتے ہیں۔ محبوب عالم جمیل احمد کے بڑے بیٹے ہیں اور گاؤں کے پردھان ہیں۔ گھر کے باہر مسعود عالم آئی ای ایس لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ مسعود عالم محبوب سے چھوٹے ہیں اور اس وقت ریلوے میں اے ڈی آر ایم کے عہدے پر فائز ہیں۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
اس کامیابی کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا، اس پر جمیل احمد کہتے ہیں، ’’میں لوگوں کی خوشی میں بینڈ بجانے جایا کرتا تھا۔ کئی افسروں کی شادیوں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ افسروں کی کیا عزت ہوتی ہے۔ بس دل میں تمنا جاگی کہ میرا بیٹا بھی افسر بنے۔ کافی لوگوں سے بات کرنے کے بعد جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ بیٹے کو تعلیم کے ساتھ کوچنگ بھی دلانی ہوگی۔ کوچنگ کا خرچ پورا کرنا آسان نہیں تھا تو بڑے بیٹے نے قربانی دی اور پڑھائی چھوڑ کر گھر چلانے کی ذمہ داری اپنے سر پر لے لی۔ چھوٹے بیٹے مسعود نے بھی مایوس نہیں کیا۔ وہ دل لگا کر پڑھا اور انجینئرنگ کا امتحان پاس کر لیا۔ آج اس کے پاس سرکاری بنگلہ ہے، نوکر چاکر ہیں اور ایک سماج میں عزت ہے۔‘‘ جمیل احمد اپنے بچوں کی کامیابی میں اپنی بیوی کا ہاتھ ہونے کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی بیوی ایک نیک عورت ہیں جنہوں نے بچوں کی بہترین پرورش کی اور وہ تمام بری عادتوں سے دور رہے۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
جمیل احمد کی طرح مسلم طبقہ میں گزشتہ سالوں سے کافی تبدیلی آ رہی ہے۔ بالخصوص پسماندہ اور غریب مسلمانوں نے محنت اور تعلیم کا راستہ اختیار کیا اور کامیابی کی منزل حاصل کی۔ متعدد مسلم بچیوں نے جج کا امتحان پاس کر کے بھی امید کی شمع کو روشن کیا ہے۔ حال ہی میں اتراکھنڈ کی تین لڑکیوں نے جج کا امتحان پاس کیا ہے۔ یہ تینوں دیہی علاقہ سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے نام عائشہ فرحین، جہاں آرا انصاری اور گلستاں انجم ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ تینوں ہی کے والدین بہت کم پڑھے لکھے ہیں اور ان کی مائیں تو کبھی اسکول بھی نہیں گئیں۔ اس سے قبل راجستھان، ہریانہ اور یوپی سے اس طرح کی کہانیاں سامنے آ چکی ہیں، جہاں نوجوانوں نے مختلف امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
میرٹھ کی مہناز راؤ ان دنوں امروہہ میں بطور سول جج اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ان کے والد بابو اور والدہ بانو بالکل بھی پڑھے لکھے نہیں ہیں، تاہم ان کا ایک بیٹا ڈاکٹر ہے، دوسرا بیٹا آئی آئی ٹی این ہے۔ ایک بیٹی جج بن گئی ہے جبکہ دوسری بیٹی مائیکرو بائیولاجی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ بابو کہتے ہیں کہ ان کے پاس پیسہ تھا لیکن بچوں کو اسکولوں میں جاتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوا کہ کامیابی کا راز تعلیم میں ہی پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ان کے آس پاس موجود لوگ گاڑی اور دوسری عیش و عشرت کی چیزیں خرید رہے تھے اس وقت انہوں نے اپنا پیسہ بچوں کی تعلیم میں خرچ کیا۔ بابو کہتے ہیں، ’’آج مجھے اس بات پر سکون ہے کہ میں نے صحیح فیصلہ لیا۔‘‘
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
ایسی ہی ایک اور کہانی مظفرنگر کے نرانا گاؤں کی ہے۔ گاؤں کی آبادی 2000 ہے اور یہاں کا کوئی بھی شخص ڈاکٹر نہیں بنا تھا لیکن یہاں کے بیٹے محمد تابش نے نہ صرف ڈاکٹر بننے میں کامیابی پائی بلکہ ایمس میں تیسری رینک بھی حاصل کی۔ تابش 30 لاکھ کی آبادی والے ضلع مظفرنگر کے پہلے گیسٹرولاجسٹ ہوں گے۔ اس سے قبل محمد تابش لکھنؤ کے ’کے جی ایم سی ‘ کالج کی 91 سالہ تاریخ میں ٹاپ کرنے والے پہلے مسلم طالب علم بھی بنے تھے۔ تابش کے والد بھی اسکول تو گئے ہیں لیکن وہاں کیا پڑھا انہیں یاد نہیں ہے۔ ان کی امی بھی صرف قرآن ہی پڑھ سکتی ہیں۔ چھ بھائیوں میں سے ایک تابش ڈاکٹر ہیں جبکہ ان کے دیگر پانچ بھائی انجینئر ہیں۔ کھیتی کرنے والے تابش کے والد محمد محتشم کہتے ہیں کہ صرف اور صرف محنت ہی ہماری تقدیر بدل سکتی ہے اور ہم نے بہت پہلے یہ سمجھ لیا تھا۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
دہلی دہرا دون جی ٹی روڈ پر واقعہ قبضہ کھتولی کے 66 سالہ شکیل احمد بھی ان والدین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی بچی کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور بچی نے ان کا نام روشن کیا۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ شکیل احمد کیرانہ کی دکان چلاتے ہیں۔ وہ جس ماحول سے آتے ہیں وہاں بچوں کی تعلیم کو منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن انہیں اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی دی۔ ان کی بیٹی زینت پروین اس وقت جج کے عہدے پر فائز ہیں اور اس سے قبل وہ ایک کالج میں لیکچرر تھیں۔ شکیل احمد کی دوسری بیٹی ایم ایس سی کر رہی ہے جبکہ تیسری نے بی ایڈ مکمل کر لیا ہے۔ شکیل احمد کہتے ہیں، ’’ہم دنیا دیکھ رہے ہیں اور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بغیر قابلیت کوئی کھڑا نہیں رہ سکتا۔ ہمارے پاس بہت زیادہ محنت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے۔‘‘
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
سماجی مفکر خالد انیس انصاری مسلمانوں میں آئی اس تبدیلی پر کہتے ہیں 90 کی دہائی کے بعد مسلمانوں کے نظریہ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے انہیں لگا کہ روایتی کاروبار میں اب مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ انہیں کام کرنے کے لئے بھی پڑھنا ہوگا۔ کاریگری کے لیے بھی اب ڈپلوما اور ڈگری کی ضرورت ہے۔ دوسرے ہندوتوا کے بڑھتے اثر نے بھی مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب ہونے پرمجبور کیا۔ اب وہ سسٹم کا حصہ بن کر خود کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ مسلمانوں پر آج خود کو ثابت کرنے کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
مسلمانوں کی کروڑوں کی آبادی میں جو یہ نتائج سامنے آئے ہیں یہ شاندار ہیں اور ان کی تعریف بھی ہونی چاہیے مگر یہ ناکافی ہے۔ ابھی یہ تعداد 3 سے 5 فیصد ہے جسے کم از کم 20 فیصد ہونا چاہیے۔ جن لوگوں نے ہمت کی ہے اور علم کو ترقی کی راہ بنایا ہے وہ قابل تحسین ہیں۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Feb 2021, 11:25 AM IST