الٰہ آباد ہائی کورٹ میں داخل کی گئی ایک عرضی نے بی جے پی کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہے۔ پارٹی کے انتخابی نشان ’کمل‘ کے پھول پر انگلی اٹھائی گئی ہے اور سوال کیا گیا ہے کہ آخر قومی پھول کو بی جے پی بطور انتخابی نشان کس طرح استعمال کر رہی ہے۔ اس تعلق سے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے انتخابی کمیشن کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کو قومی پھول کمل انتخابی نشان کی شکل میں کس طرح دیا گیا۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی گزشتہ 40 سالوں سے کمل کے پھول کو بطور انتخابی نشان استعمال کر رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی لیڈر کالی شنکر نے اس تعلق سے مفاد عامہ عرضی داخل کی اور سوال اٹھایا کہ کسی سیاسی پارٹی کو انتخابی نشان پارٹی کے ’لوگو‘ کی شکل میں استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ انتخابی نشان انتخاب تک کے لیے ہی محدود ہے۔ اس معاملے میں سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ عرضی میں یہ ایشو نہیں اٹھایا گیا ہے کہ انتخابی نشان صرف انتخاب کے لیے الاٹ کیا جاتا ہے، دیگر کاموں کے لیے نہیں۔ تو پھر انتخابی نشان کا دیگر مقاصد سے استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
عرضی پر سماعت کے دوران عدالت نے یہ بھی کہا کہ کئی خواندہ ممالک میں انتخابی نشان نہیں ہے، لیکن ہندوستان میں انتخابی نشان سے انتخاب لڑا جا رہا ہے۔ انتخابی کمیشن کے وکیل نے ان نکات پر غور کرنے کے لیے وقت طلب کیا، جس پر عدالت نے جواب داخل کرنے کے لیے وقت دیتے ہوئے آئندہ سماعت کی تاریخ 12 جنوری 2021 مقرر کی۔
Published: undefined
سماجوادی پارٹی لیڈر کالی شنکر کے ذریعہ داخل عرضی پر سماعت چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس پیوش اگروال کی بنچ نے کی۔ عرضی پر وکیل جی سی تیواری اور کپل تیواری نے بحث کی۔ عرضی دہندہ کالی شنکر کا کہنا ہے کہ عوامی نمائندہ ایکٹ 1951 اور انتخابی نشان (ریزرویشن اینڈ الاٹمنٹ) حکم 1968 کے تحت انتخابی کمیشن کو انتخاب لڑنے کے لیے قومی سیاسی پارٹی کو انتخابی نشان الاٹ کرنے کا حق ہے۔ انتخابی کمیشن کو ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹی کی منظوری واپس لینے کا اختیار بھی ہے۔ اس درمیان عدالت نے عرضی دہندہ کو دیگر کسی سیاسی پارٹی کو بھی فریق بنانے کی چھوٹ دی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined