نئی دہلی: سپریم کورٹ میں آج ایک ایسی عجیب و غریب صورت حال پیدا ہو گئی کہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کو عدالت عظمیٰ کے جج سمجھنے سے قاصر رہے۔ فیصلہ پر جج صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ایسا فیصلہ ہے جسے پڑھنے کے بعد سر پر بام لگانا پڑا۔ دراصل سپریم کورٹ کے دونوں جج ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے فیصلے کو تحریر کرنے کے طریقہ پر ناراض تھے، یہاں تک کہ دونوں جج ہندی میں بات کرنے لگے۔
Published: undefined
جسٹس چندر چوڈ نے کہا، ’’یہ کیا ججمنٹ لکھا ہے۔ میں اسے دس بجکر دس منٹ پر پڑھنے بیٹھا تھا اور 10.55 تک پڑھتا رہا۔ یا خدا! وہ حالت ہو گئی ہے کہ بتائی نہیں جا سکتی۔‘‘ اس پر جسٹس ایم آر شاہ نے کہا، ’’مجھے تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ اس میں اتنے لمبے لمبے جملے ہیں کہ کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ شروع میں کیا کہا گیا ہے اور آخر میں کیا کہا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ پورے ججمنٹ میں کومہ ہی کومہ ہیں۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ جملہ کہاں ختم ہوا ہے، کہاں نہیں۔ یہ فیصلہ پڑھتے وقت مجھے کئی مرتبہ اپنے علم اور اپنی سمجھ پر ہی شک ہونے لگا۔ مجھے فیصلے کا آخری پیرا پڑھنے کے بعد سر پر بام لگانا پڑ گیا!‘‘
Published: undefined
جسٹس چندرچوڈ نے فیصلہ پر پھر کہا کہ ’’فیصلہ اتنی آسان زبان میں تحریر ہونا چاہے کہ کوئی بھی عام آدمی اسے مجھ سکے۔ جسٹس کرشن ایئر کے فیصلے ایسے ہی ہوتے تھے، جیسے وہ کچھ کہہ رہے ہیں اور پڑھنے والا بھی اتنی ہی آسانی سے اسے سمجھ رہا ہے۔ الفاظ کی کاریگری تھی۔‘‘
Published: undefined
سینٹرل گورنمنٹ انڈسٹریل ٹربیونل (سی جی آئی ٹی) کے ایک معاملہ میں ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے فیصلہ پر بنچ نے کہا کہ فیصلہ کافی دیر تک پڑھنے کے بعد بھی کچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر کورٹ کیا کہنا چاہتا ہے۔ ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے نومبر 2020 میں آیے اس 18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کوئی حتمی پہلو نظر نہیں آتی۔
Published: undefined
دراصل یہ معاملہ مرکزی حکومت کے ایک ملازم کی عرضی پر مبنی تھا، جس میں ہائی کورٹ نے سی جی آئی ٹی کے حکم پر مہر ثبت کی تھی۔ سی جی آئی ٹی نے ایک ملازم کو بدعنوانی کا مجرم قرار دیتے ہویے سزا دی تھی۔ ملازم اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ گیا لیکن کوئی راحت نہیں ملی، آخر میں اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز