نئی دہلی: ہمیں جس کسی پر بھی ظلم ہوتا ہے، اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ جو لوگ دستور کو نہیں مانتے اور اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں کیا اس میں ایک ہی معاملہ کے لئے دو الگ الگ قانون ہوسکتے ہیں۔ ہوس اقتدار کی خاطر ملک کو فرقہ وارانہ آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔ اس پر سب کو غور اور تفکر کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے یہاں ساؤتھ ایشین مائنارٹیز لائرز ایسو سی ایشن (ساملا) کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کے عالمی دن موقع پر منعقدہ ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے نازی جرمنی کے شاعرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے اس پر عمل نہیں کیا تو کوئی بھی بچانے والا باقی نہیں رہے گا۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ ہوس اقتدار کی خاطر ملک میں جو فرقہ وارانہ صف بندی پیدا کی جا رہی ہے، وہ ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے خطرناک مضمرات کی حامل ہے۔ اقلیت کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے خیال کے حوالے سے کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے متنبہ کیا کہ جو لوگ دستور کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ ایک فعل کے لیے ملک میں دو الگ الگ قانون نہیں ہوسکتے۔ اس جلسہ میں ملک کے سرکردہ وکلاء اور دانشوروں نے جنوبی ایشیا کے ملکوں بالخصوص ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جارہے سلوک اور ظلم و ستم پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔
Published: undefined
اس موقع پر پرشانت بھوشن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں مشکوک بنانے کی مہم میں بی جے پی کا آئی ٹی سیل اور گودی میڈیا پیش پیش ہیں، لیکن اس صورت حال سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے محلہ سطح پر ہر مقام پر ہارمونی کونسل قائم کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ رائے عامہ اب اس منافرگروہ کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔
Published: undefined
بھوپیندر سنگھ سوری نے بھی مشورہ دیا کہ ہمیں آپس میں میل جول کو بڑھانا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جان سکیں اور غلط فہمیاں دور کرسکیں۔ 1984 کے سانحہ کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا تعلق بھی ایک اقلیتی فرقہ سے ہے اس لیے میں جانتا ہوں کہ اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا کہ مساوات کی تعلیم کے باوجود مسلمانوں اور سکھوں میں ذات برادری کا چلن باقی ہے۔
Published: undefined
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اقلیتی حقوق کے ارتقا پر روشنی ڈالتے ہوئے سارک ملکوں میں اقلیتوں کی صورت حال کا مفصل خاکہ پیش کیا۔ ان کے بقول اس خطہ کے ہر ملک میں غالب گروپ چاہتا ہے کہ وہاں کی اقلیتیں اس کی تہذیب و ثقافت اور مذہب کو اختیار کرے۔ بھوٹان، سری لنکا، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، برما اور ہندوستان میں اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم اس معاملے میں پاکستان اور بنگلہ دیشی حکومتوں کا رویہ قابل اطمینان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشاکش کے باعث سارک تنظیم موثر و فعال نہیں بن سکی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined