گزشتہ دنوں دہلی میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کی حکومتی کوششوں کی خبریں منظر عام پر آئیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا رہا۔ اب دہلی کے باہر بھی آلودگی پر قابو پانے کو لے کر بحث شروع ہو رہی ہے۔ مودی حکومت نے ایک ’نیشنل کلیئر ایئر‘ پروگرام شروع کیا ہے جس میں 102 ایسے شہروں کو شامل کیا گیا ہے جہاں کی فضائی آلودگی طے شتہ معیاروں سے زیادہ رہتی ہے۔
اس کے تحت ہر ایک شہر کی آلودگی کم کرنے کے لئے الگ الگ ایکشن پلان ہوگا اور اگلے 5 سال کے اندر پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی سطح میں 20 سے 30 فیصد کی کمی لانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال اس منصوبہ پر بات کرتے ہوئے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے بتایا کہ ایک سال کے اندر پروگرام کا جائزہ لیا جائے گا اور ہدف کو کم کر دیا جائے گا ۔ نیشنل کلیئر ایئر پروگرام کے تحت مانیٹرنگ اسٹیشن قائم کرنا، عوام تک اعداد و شمار کو پہنچانا، عوامی شراکت داری اور پیش گوئی کا نظام قائم کرنا شامل ہے۔
نیشنل کلیئر ایئر پروگرام تو شروع ہو گیا لیکن مودی حکومت کو عوام کے کچھ سوالوں کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ یہ پروگرام ایئر پالیوشن کنٹرول 1981 کا پھر ماحولیاتی تحفظ قانون کا حصہ نہیں ہے تو کیا حکومت کے مطابق پرانے تمام قوانین کسی بھی تنیجہ تک پہنچنے کے اہل نہیں تھے؟ اگر حکومت ایسا نہیں مانتی تو پھر علیحدہ سے پروگرام چلانے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ اور اگر یہ قوانین غیر موثر ہیں تو پھر حکومت نئے قوانین بنانے کی سمت میں کیا کر رہی ہے؟۔
حکومت کے مطابق فضائی آلودگی پر مبنی پرانے قوانین کا دائرہ محدود تھا لیکن اس کے’کلیئر ایئر‘ پروگرام کا دائرہ محدود نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی خود ساختہ پروگرام ملک کو آلودگی سے پاک کر سکتا ہے؟۔
ڈاکٹر ہرش وردھن کے مطابق پروگرام میں صرف پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی سطح میں کمی لائی جائے گی، تو کیا حکومت کا یہ خیال ہے کہ فضائی آلودگی پھیلانے میں گیسوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایک طرف دنیا بھر کی تحقیق کے مطابق نائٹروجن، اوزون، امونیا اور سفر ڈائی آیکسائیڈ گیسوں کا بھی مویشیوں اور زراعت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ لیکن مودی حکومت گیسوں کے اثرات کو لگاتار نظر انداز کر رہی ہے اور حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ گیسوں کی ملک کی ہوا میں کیا صورت حال ہے کہ معلوم ہی نہیں ہے۔
اوزون گیس کے اثرات پر گزشتہ سال ایک بین الاقوامی تحقیق شائع کی گئی تھی جس کے مطابق اوزون کی وجہ سے بھی ہندوستان میں کافی اموات واقع ہوتی ہیں۔ حال ہی میں نائٹروجن ڈائی آیکسائیڈ کی وجہ سے اسقاط حمل ہونے کا بھی پتہ چلا تھا، جبکہ ایک دیگر تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تمام شمالی ہندوستان میں امونیا کی زیادہ مقدار کا موجود ہونا ایک مسئلہ ہے۔
گزشتہ سال وزارت برائے ماحولیات نے کلیئر ایئر فار دہلی تحریک چلائی، اس کا نتیجہ کیا نکلا وہ بھی کسی کو معلوم نہیں، یہ ضرور سب کو معلوم ہے کہ اس سے پہلے بھی دہلی آلودگی کا شکار تھی اور اس کے بعد بھی۔ دہلی میں آلودگی کے خاتمہ کے لئے گریڈیڈ ریسپانس سسٹم نافذ کیا گیا، وہ بھی کاغذوں میں آلودگی کو کم کرتا رہا اور دہلی والے آلودگی سے جد و جہد کرتے رہے۔
Published: undefined
سب سے مضحکہ خیز تو یہ ہے کہ فضائی آلودگی سے متعلق معیاروں میں کل 12 پیرا میٹر ہیں لیکن ان سب کی نہ تو ملک بھر میں تشخیص کی جاتی اور نہ ہی ان معیاروں کی تشریح کرنے کے لئے ملک بھر کی ایئر کوالٹی کی کوئی سائنسی تحقیق کی گئی۔
اس سب کے درمیان مرکزی پالیوشن کنٹرول بورڈ کا منفی رویہ بھی آلودگی میں اضافہ کرنے کا ذمہ دار ثابت ہو رہا ہے۔ مرکزی بورڈ کے مطابق دہلی شدید آلودگی کی زد میں ہے ہی نہیں بلکہ صرف نجف گڑھ ڈرین کا بیسن علاقہ شدید آلودگی کی زد میں ہے جو کہ دہلی کا 60 فیصد علاقہ ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جمنا پار کا علاقہ اس بیسن علاقہ میں شامل نہیں ہے جبکہ مرکزی بورڈ کے اعداد و شمار خود بتاتے ہیں کہ آنند وہار میں فضائی آلودگی زیادہ تر وقت دہلی کے دیگر علاقوں کے مقابلہ زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں تک دیگر شہروں کی علیحدہ سے رپورٹ بنانے اور اس پر عمل کرنے کا سوال ہے تو وزارت برائے ماحولیات اور مرکزی بورڈ کو یہ لازمی طور سے بتانا چاہیے کہ دہلی کے نجف گڑھ ڈرین بیسن کی صورت حال کی رپورٹ بنانے کے بعد حالت بہتر ہوئی یا بگڑتی ہی چلی جا رہی ہے؟۔
ظاہر ہے کہ حکومت کے دیگر جملوں کی طرح فضائی آلودگی پر قابو پانا بھی محض ایک جملہ ہے، لوگ مرتے رہیں گے اور ماحولیاتی وزیر اپنے منہ میاں مٹھو بنے رہیں گے اور پارلیمان کو یہ بتاتے رہیں کہ فضائی آلودگی سے کوئی نہیں مرتا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined