مرکزی حکومت نے 3 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں میریٹل ریپ یعنی ازدواجی عصمت دری سے متعلق ایک معاملے میں اپنا جواب داخل کیا ہے۔ اس میں مرکز کا کہنا ہے کہ ازدواجی عصمت دری قانونی نہیں بلکہ ایک سماجی ایشو ہے۔ کسی فیصلہ پر پہنچنے کے لیے وسیع سطح پر متعلقہ طبقات سے مشورہ کی ضرورت ہے۔ ازدواجی زندگی میں عصمت دری کے تعلق سے موجودہ قوانین میں خواتین کے لیے کافی التزامات ہیں۔
Published: undefined
مرکزی حکومت نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں شادی کو ایک بڑی ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے، جہاں قسموں کو ناقابل تبدیل مانا جاتا ہے۔ شادی شدہ زندگی میں خواتین کا اتفاق آئینی طور سے محفوظ ہے، لیکن اسے کنٹرول کرنے والے سزا کے التزامات الگ ہیں۔ ازدواجی عصمت دری کی شکار خاتون کے لیے دیگر قوانین میں بھی ترکیبیں موجود ہیں۔ دفعہ 375 کے استثنیٰ 2 کو ختم کرنے سے شادی کے تصور پر منفی اثر پڑے گا۔
Published: undefined
مرکزی حکومت نے موجودہ ہندوستانی عصمت دری قانون کی حمایت کی ہے جس میں شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی رشتوں کے لیے اسے استثنیٰ بناتا ہے۔ مرکز نے کہا کہ یہ معاملہ قانونی سے زیادہ سماجی ہے، جس کا براہ راست اثر عام سماج پر پڑتا ہے۔ اگر ازدواجی عصمت دری کو جرم قرار بھی دے دیا جاتا ہے تو سپریم کورٹ اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ صرف حکومت ہی اس پر فیصلہ لے سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز