بجنور: ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ یہ کہاوت ایک بار پھر بجنور کے ایک عام انسان نے صحیح ثابت کر دی۔ یہاں کے مستقیم نے میڈیا میں چل رہی کورونا کی خبروں کے درمیان سینیٹائزر لفظ سنا تو اس کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ پھر وہ میڈیکل اسٹور پہنچا جہاں سے پتہ کیا کہ آخری یہ سینیٹائزر ہوتا کیا ہے۔ پوری تفصیل معلوم ہونے کے بعد گھر بیٹھے بجنور کے اس مستری مستقیم نے خود ایک سینیٹائزر مشین تیار کر دی۔ مستقیم کے کارنامے کی تعریف اب مقامی لوگ ہی نہیں بلکہ انتظامیہ بھی کر رہی ہے۔
Published: undefined
مستقیم نے جو سینیٹائزر مشین بنائی ہے وہ 15 سیکنڈ میں کسی شخص یا موٹر سائیکل دونوں کو پوری طرح سینیٹائز کر دیتی ہے۔ اس کے لیے صرف ایک بار اس مشین کے اندر داخل ہونا ہوتا ہے۔ مستقیم کے اس کارنامہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کورونا سے لڑائی کے لیے عام آدمی بھی کس طرح کمر کس چکا ہے اور وہ صرف حکومت کے اوپر منحصر نہیں رہنا چاہتا۔
Published: undefined
دلچسپ بات یہ ہے کہ 26 سالہ مستقیم کے پاس مشین بنانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ پڑوسی ابرار احمد نے اس کی مالی مدد کی اور پھر ایک ایسی مشین وجود میں آ گئی جس کو دیکھنے کے لیے علاقے میں لوگوں کی بھیڑ بھی جمع ہے اور مقامی انتظامیہ بھی مستقیم کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ پا رہی۔ ابرار احمد ایک سماجی کارکن اور ٹھیکیدار ہیں۔ انھوں نے مستقیم کی ہر طرح سے مدد کرنے کا فیصلہ کیا جب پتہ چلا کہ وہ سینیٹائزر مشین بنانے کی تیاری کر رہا ہے لیکن اسے مالی پریشانی کا سامنا ہے۔
Published: undefined
کورونا وائرس کے خلاف جاری لڑائی کے درمیان ابرار احمد کی مدد سے مستقیم نے ایک فل باڈی سینیٹائزنگ مشین بنا کر سبھی کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مشین سنسر کے ذریعہ سینیٹائزیشن کا عمل پورا کرتا ہے۔ مشین کے اندر رہ کر کوئی بھی شخص صرف 15 سیکنڈ میں ہی سینیٹائز ہو جائے گا اور اس کے کپڑوں سے لے کر جوتے تک سینیٹائز ہو جائیں گیں۔ گویا کہ اس میں اگر جراثیم موجود ہوتے ہیں تو وہ ختم ہو جائیں گے۔
Published: undefined
سینیٹائزیشن مشین بنانے کے بارے میں مستقیم نے جو وجہ بتائی وہ انتہائی دلچسپ ہے۔ مستقیم نے بتایا کہ اس نے ٹی وی اور سوشل میڈیا میں سینیٹائزر لفظ کو کئی بار سنا اور اس کے بارے میں وہ جانکاری حاصل کرنے ایک میڈیکل اسٹور گیا۔ اس میڈیکل اسٹور پر پتہ چلا کہ اسے ہاتھ پر لگا لینے سے جراثیم مر جائیں گے۔ لیکن مستقیم نے سوچا کہ صرف ہاتھ کو نہیں بلکہ پورے جسم کو سینیٹائز کیا جانا چاہیے تبھی کورونا کے خلاف جنگ میں فتح مل سکے گی۔ اس سوچ کے ساتھ ہی مستقیم نے فل باڈی سینیٹائزیشن مشین بنانے کا ارادہ کر لیا۔
Published: undefined
مستقیم کے کارنامہ کو دیکھتے ہوئے بجنور باشندہ خورشید منصوری کا کہنا ہے کہ "ضلع میں پہلی بار کسی نے عوام کو راحت پہنچانے کے لیے اس طرح کا کام کیا ہے۔ یہ ایک سکون پہنچانے والی خبر ہے۔ حکومت کی کوششوں کے سامنے یہ بھلے ہی بہت چھوٹی کاوش ہے، لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام انسان بھی اس وقت کورونا کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ لڑائی خلوص نیتی کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔"
Published: undefined
بہر حال، لڑاپورہ گاؤں میں رہنے والے مستقیم کی کاوش کی ہر کوئی تعریف کر رہا ہے۔ اس کو مدد دینے والے ابرار احمد کی بھی خوب تعریف ہو رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مستقیم نے ریاضی سبجیکٹ سے بی ایس سی کیا ہے لیکن اس کا دماغ ٹیکنالوجی میں زیادہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ الیکٹرانک کاموں میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ شہر میں اس نے اپنی ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی دکان چلانے والے شخص نے اپنی صلاحیت اور عقل کا بہترین استعمال کرتے ہوئے وقت کی اہم ضرورت کو پورا کیا ہے اور 'فل باڈی سینیٹائزیشن مشین' کی شکل میں ایک ایسی ایجاد سامنے آئی ہے جس کی چہار جانب واہ واہی ہو رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز