کولکاتا کے آر جی کر میڈیکل کالج اور اسپتال میں ایک جونئیر ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والے ریپ اور قتل کے معاملے پر جاری احتجاج میں اس وقت نیا موڑ آ گیا جب دو مختلف تنظیمیں، جن میں مغربی بنگال جونئیر ڈاکٹروں کا فرنٹ (ڈبلیو بی جے ڈی ایف) اور مغربی بنگال جونئیر ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن (ڈبلیو بی جے ڈی اے) شامل ہیں، ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے ہیں۔
Published: undefined
ڈبلیو بی جے ڈی ایف نے ڈبلیو بی جے ڈی اے پر الزام لگایا ہے کہ یہ ایک ایسے گروہ کی نمائندگی کر رہا ہے جس پر میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں میں دھمکی کی روایت قائم کرنے کا الزام ہے۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ آر جی کر میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل، سندیپ گھوش جیسے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی حمایت حاصل کر رہے ہیں۔
Published: undefined
دوسری طرف، ڈبلیو بی جے ڈی اے کے نمائندوں نے ڈبلیو بی جے ڈی ایف کے اراکین پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ ریپ اور قتل کے معاملے کا استعمال اپنے ذاتی مفادات کے لیے کر رہے ہیں، جس میں عوام سے پیسے جمع کرنا بھی شامل ہے۔
ڈبلیو بی جے ڈی اے نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈبلیو بی جے ڈی ایف کے اراکین کی، بشمول اس فنڈ کے ذرائع کی تحقیقات کی جائیں، جو انہوں نے اپنے احتجاج کے لیے جمع کیے ہیں۔
Published: undefined
ڈبلیو بی جے ڈی ایف نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈبلیو بی جے ڈی اے کا قیام دراصل حکومتی پارٹی کے حمایت سے ہوا ہے تاکہ حقیقی تحریک کو بدنام کیا جا سکے۔ ایک ڈبلیو بی جے ڈی ایف کے نمائندے نے کہا، "ہم نے عوامی مفاد کے لیے اور مرحوم جونئیر ڈاکٹر کے والدین کی درخواست پر اپنی بھوک ہڑتال واپس لے لی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی تحریک کو ختم کریں گے۔ بلکہ ہم اس مسئلے پر اپنی آواز کو دیہاتوں تک لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ڈبلیو جے ڈی ایف نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ کالی پوجا سے ایک دن پہلے، بدھ کو کولکاتا کے شمالی بیرونی علاقے سالٹ لیک میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کے دفتر تک ایک احتجاجی مارچ منعقد کرے گا۔
اس صورتحال نے نہ صرف میڈیکل کمیونٹی کو متاثر کیا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی ایک اہم سوال اٹھایا ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے حقیقی مقاصد میں کتنی مخلص ہیں۔ یہ دونوں گروہ اب ایک دوسرے کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، جس سے اس معاملے میں مزید پیچیدگی پیدا ہو رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز