تمل ناڈو کے ویلور میں واقع ایک مسجد کو لے کر زبردست تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ ’ہندو منّانی‘ تنظیم کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر بغیر اجازت کی گئی ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ کارکنان کا کہنا ہے کہ ایک گھر کو راتوں رات مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہندو منّانی تنظیم سے جڑے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر سے مستقبل میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس مسجد کے 100 میٹر کے دائرے میں ہی تین مندر موجود ہیں، اور مسجد کے علاقے سے ہی مندر کے جلوس نکالے جائیں گے۔
Published: undefined
اس پورے معاملے پر پولیس کا کہنا ہے کہ عمارت ایک کاروباری کی تھی اور حال ہی میں اس کی از سر نو تعمیر ہوئی تھی، بعد ازاں اس پر مسجد کا ایک بورڈ لگایا گیا تھا۔ اس بورڈ کے لگنے کے بعد ہندو منّانی کے کارکنان کافی ناراض ہیں اور ضلع کلکٹر کے سامنے عرضی داخل کر کہا ہے کہ وہ مسجد کی تعمیر کا کام مکمل نہیں ہونے دیں گے۔
Published: undefined
ویلور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ راجیش کنّن نے اس معاملے میں خبر رساں ایجنسی ’آئی اے این ایس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس جگہ کا استعمال نجی عبادت گاہ کی شکل میں کیا جاتا تھا۔ اب انھوں نے اسے ایک عوامی عبادت گاہ کے مرکز میں بدلنے کے لیے ایک بورڈ لگا دیا ہے۔ ہندو تنظیم کے لوگ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ان کے پاس عبادت گاہ بنائے جانے سے متعلق کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔ اس کے لیے ریونیو ڈپارٹمنٹ دستاویزوں کی جانچ کر رہا ہے اور ساتھ ہی پولیس علاقے میں نظامِ قانون برقرار رکھنے کے لیے مستعد بھی ہے۔
Published: undefined
اس درمیان مقامی مسلم طبقہ نے کلکٹر سے ملاقات کر ایک عرضداشت سونپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ یہاں کی مسجد میں 1896 سے ہی نماز ادا کی جا رہی تھی اور ہندو منّانی کے لوگ بلاوجہ اسے ایشو بنا رہے ہیں۔ دراوڑ مسلم منیتر کزگم (ڈی ایم ایم کے) لیڈر جی ایس اقبال کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے ضلع کلکٹر کو عرضی دے کر بتایا ہے کہ مسجد 1896 سے یہاں پر تھی۔ ضلع کلکٹر اور ریونیو افسر نے ہماری عرضی پر غور کیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جمعہ سے پہلے ہمارے حق میں فیصلہ آ جائے گا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز