لکھنؤ: اتر پردیش میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے عین قبل بی جے پی حکومت کی سرپرستی میں چل رہے ریاستی لاء کمیشن کی طرف سے آبادی کنٹرول کا شوشہ چھوڑے جانے پر اٹھا طوفان ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ ریاست کی انتظامیہ کے سربراہ نے مقدس محرم کے حوالے ایک طالبانی فرمان جاری کرکے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے، جس سے ریاست کا فرقہ وارانہ ماحول خطرے میں پڑتا نظر آرہا ہے۔
Published: undefined
محرم سے تقریبا 10 روز قبل اتوار کے روز ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) مکل گوئل نے دیوبندی اور اہل حدیث مسلک کا نام لے کر ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے شیعہ فرقہ کی جانب سے محرم میں' تبرّا' کیا جاتا ہے جس پر مذکورہ مسالک کو اعتراض ہے۔ اس کے علاوہ محرم کے پروگراموں میں غیرسماجی عناصر شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سرکلر میں آگے لکھا گیا ہے کہ محرم میں گئو کشی ہوتی ہے اور جنسی تعلقات کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
Published: undefined
ڈی جی پی کے اس سرکلر پر شیعہ علماء نے سخت اعتراض کیا ہے
شیعہ مذہبی رہنماوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ محرم غم منانے کا مہینہ ہے جس میں شیعہ فرقہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے دیگر فرقے یہاں تک کہ ہندو بھی تعزیہ داری کرتے ہیں ایسی صورت میں ڈی جی پی کا بیان مقدس مہینہ محرم کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش ہے، انھوں نے کہا کہ ایک ذمہ دار عہدے پر بیٹھے شخص کی طرف سے یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان ہے جسے فوری طور پر واپس لے کر مسلمانوں سے معافی مانگنا چاہئے۔
Published: undefined
اس طرح کے غیرذمہ دار بیان پر علماء اور دانشور طبقہ کی جانب سے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈی جی پی کے سرکلر کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایام عزا کے دوران جب سنجیدہ اور حساس مسلمان خاص پور پر شیعہ فرقہ کے لوگ لباس سے لے کر زبان اور بیان تک میں مغموم نظر آتے ہیں، ایسے ماحول میں مذکورہ الزامات کے ذریعہ محرم کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کے گئی ہے جس میں ریاست کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ناپید کرنے کی سوچی سمجھیں سازش کی بو اّ رہی ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ چند روز قبل ہی اتر پردیش کے لاء کمیشن نے یوگی حکومت کو آبادی کنٹرول کا مسودہ بھیجا ہے جسے انتخابات سے پہلے فرقہ وارانہ ماحول تیار کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے، اس مسودے کی مسلمان ہی نہیں غیرمسلمانوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں مخالفت کر رہی ہیں، اسی اثناء میں اب ڈی جی پی کے سرکلر نے اتر پردیش میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کردی ہے۔
Published: undefined
سرکلر کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد جو لکھنؤ سے باہر تھے، اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر لکھنؤ پہنچے اور ایک پریس کانفرنس بلاکر مسلمانوں سے پُرامن رہنے اور ڈی جی پی سے اپنا بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ صحافہوں سے بات کرتے ہوئے مولانا کلب جواد نے کہا کہ اس سرکلر سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کے ڈی جی نے اپنے کسی شرپسند دوست کے کہنے پر اتر پردیش میں شیعہ-سنی اتحاد کو نقصان پہنچانے کے لئے انتہائی قابل اعتراض بیان جاری کیا ہے اس لئے میں اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ڈی جی پی کے بیان کی وجہ سے پورے اترپردیش میں شیعہ-سنی کشیدگی پھیل گئی ہے اور اگر محرم میں یہاں کوئی بھی گڑ بڑ ہوتی ہے تو اس کی پوری ذمہ داری ڈی جی پی کی ہوگی۔
Published: undefined
انھوں نے کہا کہ یہ صرف اور صرف ایک سازش کے تحت کیا گیا ہے، کیونکہ شہر میں طویل جدوجہد کے بعد اس وقت جو شیعہ-سنی اتحاد کی فضا قائم ہوئی ہے وہ فرقہ پرست سیاستدانوں سے دیکھی نہیں جا رہی ہے اور اسی لئے وہ ایسی حرکتوں پر اتر آئے ہیں، جس سے ایک بار پھر مسلمانوں کے اتحاد کی فضا میں زہر گھول کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ مولانا کلب جواد نے ڈی جی پی کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں شیعہ-سنی کے درمیان جب بھی کوئی گڑبڑی ہوئی ہے وہ پولیس اور انتظامیہ کے ایجنٹوں نے پھیلائی ہے۔
Published: undefined
محرم میں جنسی تعلقات کے واقعات ہونے کے الزام پر مولانا کلب جواد نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی پی کو معلوم ہونا چاہئے کہ محرم سوگ کا مہینہ ہے اور اس میں شیعہ فرقہ کے لوگ مجلس اور ماتم کرکے شہیدان کربلا کے لئے غم کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنسی تعلقات کے واقعات کا الزام لگا کر ڈی جی پی مقدس ماہ محرم کو بدنام کرکے پورے صوبہ کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس طرح کا انتہائی قابل اعتراض بیان دیتے وقت ڈی جی پی کس حال میں تھے۔ مولانا نے ڈی جی پی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے اعلیٰ افسر مذکورہ الزامات کے ثبوت کے طور پر کوئی ایک واقعہ پیش کریں، ایف آئی آر دکھائیں، ورنہ اپنے بیان کو واپس لے کر مسلمانوں سے معافی مانگیں۔
Published: undefined
مولانا کلب جواد نے کہا اگر کبھی کسی نے تبرا پڑھا یا لکھا ہوگا تو وہ پولیس کا ایجنٹ ہی رہا ہوگا، انھوں نے کہا کہ 1997 کے شیعہ-سنی معاہدے سے پہلے جب کسی جانور یا دیوار پر قابل اعتراض نعرے لکھے ملتے تو بعد میں پتہ چلتا تھا کہ ایل آئی یو والے نے لکھا ہے۔ اس طرح شیعہ-سنی فساد میں پوری طرح پولیس اور انتظامیہ شامل ہوتی تھی۔ تاکہ شیعہ-سنی ایک دوسرے کو ذمہ دار بتا کر آپس میں متصادم ہو جائیں۔ مولانا کلب جواد نے کہا کہ زمانہ بدل چکا ہے مسلمان اب اس طرح کی سازشوں میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔ مولانا نے تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ڈی جی پی اپنا بیان واپس نہیں لیتے وہ پولیس انتظامیہ کی کسی میٹنگ میں شامل نہ ہوں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined