سپریم کورٹ میں آج دو بڑے معاملات کی سماعت ہوگی۔ یہ دو مسائل جبری یعنی زبردستی تبدیلی مذہب اور عبادت گاہوں سے متعلق ہیں۔ زبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں جبکہ عبادت گاہ کے قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔
Published: undefined
دونوں مقدمات کی سماعت گزشتہ سال کے آخر میں ہوئی تھی۔ عبادت گاہ ایکٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ میں 14 نومبر 2022 کو سماعت ہوئی تھی، جب کہ جبری تبدیلی کے معاملے پر آخری سماعت 5 دسمبر کو ہوئی تھی۔
Published: undefined
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے عبادت گاہوں کے قانون پر سماعت کے سلسلے میں چھ عرضیوں کو درج کیا ہے، جن میں راجیہ سبھا کے سابق رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کی درخواست بھی شامل ہے۔ یہ درخواستیں اس قانون کی دفعات کو چیلنج کرتی ہیں۔ واضح کریں کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کے مطابق 15 اگست 1947 کو مذہبی مقامات کی نوعیت کو تبدیل کرنے کا مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا۔
Published: undefined
پلیس آف ورشپ ایکٹ سے متعلق پچھلی سماعت میں مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سپریم کورٹ سے مزید وقت کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کیس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے والا ایک تفصیلی حلف نامہ مرکز کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل کیا جائے گا۔ مرکز کی درخواست پر 12 دسمبر تک جوابی حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا تھا کہ حلف نامہ کی کاپی تمام فریقین کو فراہم کی جائے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس معاملے پر اگلی سماعت 9 جنوری 2023 کو ہوگی۔
Published: undefined
جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنانے کا مطالبہ کرنے والی عرضیوں سے متعلق 5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے اسے ایک سنگین مسئلہ سمجھا۔ قبل ازیں سماعت میں عدالت نے مرکز سے تفصیلی حلف نامہ طلب کیا تھا۔ حلف نامہ میں مرکز نے جواب دیا تھا کہ لالچ، فریب اور دباؤ کی وجہ سے تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ عدالت کے ایک پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے مرکز نے دلیل دی تھی کہ مذہب کی تبلیغ کرنا کسی شخص کا بنیادی حق ہے لیکن زبردستی مذہب تبدیل کرنا بنیادی حق نہیں ہے۔مرکز کی جانب سے کہا گیا کہ اس معاملے پر ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز