سپریم کورٹ نے مرکزی جانچ بیورو یعنی سی بی آئی کے طریقہ کار پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ سی بی آئی کی لاپروائی سے سپریم کورٹ انتہائی ناراض ہے یہی وجہ ہے کہ ایک معاملے میں سی بی آئی کے ذریعہ 542 دنوں کی تاخیر کے بعد اپیل داخل کرنے پر سپریم کورٹ نے اس مرکزی ایجنسی کے کام کے طریقہ اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایجنسی کے ذریعہ مقدمہ چلانے والے معاملوں میں سزا کی کم شرح کو دیکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے۔
Published: undefined
عدالت عظمیٰ نے سی بی آئی ڈائریکٹر کو ان معاملوں کی تعداد پیش کرنے کی ہدایت دی ہے جن میں ایجنسی ذیلی عدالتوں اور ہائی کورٹوں میں ملزمین کو قصوروار ٹھہرانے میں کامیاب رہی ہے۔ عدالت نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ذیلی عدالتوں اور ہائی کورٹوں میں کتنے ٹرائل زیر التوا ہیں اور وہ کتنے وقت سے زیر التوا ہیں؟ عدالت نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ڈائریکٹر قانونی کارروائی کے لیے محکمہ کو مضبوط کرنے کے لیے کیا اقدام کر رہے ہیں۔
Published: undefined
جسٹس سنجے کشن کول کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ ایجنسی کے لیے صرف معاملہ درج کرنا اور جانچ کرنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ یہ یقینی کرنا بھی ہے کہ کامیابی کے ساتھ الزام کو ثابت کیا جائے۔ عدالت نے پہلے کی سماعت میں کہا تھا کہ ’ذمہ داریوں کو نبھانے میں زبردست لاپروائی کی ایک داستان‘ ہے، جس کے نتیجہ کار عدالتوں میں معاملے درج کرنے میں بہت تاخیر ہوئی اور اس کے ڈائریکٹر سے جواب طلب کیا تھا۔
Published: undefined
سی بی آئی کی جانب سے پیش ہوئے اے ایس جی سنجے جین نے دلیل دی کہ ہندوستان جیسے مشکل مقدمہ بازی نظام میں مقدمہ بازی میں کامیاب کی شرح کو مضبوطی طے کرنے والے اسباب میں سے ایک مانا جانا چاہیے، لیکن بنچ نے کہا کہ دنیا بھر میں ایک ہی پیمانہ پر عمل کیا جاتا ہے اور ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسے سی بی آئی پر نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم سی بی آئی کے ذریعہ نمٹائے جا رہے معاملوں کے بارے میں ڈاٹا چاہتے ہیں۔ سی بی آئی کتنے معاملوں میں مقدمہ چلا رہی ہے؟ مدت کار جس کے لیے مقدمے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ذیلی عدالتوں اور ہائی کورٹس میں سی بی آئی کی کامیابی شرح کیا ہے؟ عدالت نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایجنسی کی کامیابی کی شرح کیا ہے؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined