قومی خبریں

مذہبی کتابوں کے حوالے نہیں ثبوت پیش کریں، ہندو فریق کے وکلا کو سپریم کورٹ کا مشورہ

چیف جسٹس رنجن گگوئی نے یہ کہا کہ مذہبی کتابوں کا اس وقت معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، کیونکہ سوال اعتقاد کا نہیں بلکہ زمین کا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

نئی دہلی: بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں آج ہندو فریقین کے وکلاء کی بحث کے دوران چیف جسٹس رنجن گگوئی نے ایک بار پھر کہا کہ یہ معاملہ آستھا (اعتقاد کا نہیں) ہمیں نقشہ دکھائیں یا کچھ ایسا دکھائیں کہ جس سے یہ پتہ لگ سکے کہ یہ وہی جگہ ہے، چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ مذہبی کتابوں کا اس وقت معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، کیونکہ سوال اعتقاد کا نہیں بلکہ زمین کا ہے، بابری مسجد ملکیت معاملہ کی حتمی سماعت آج نویں دن میں داخل ہوئی جس کے دوران رام للّٰا کے وکیل سی ایس ودیا ناتھن نے اپنی نامکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے آئینی بینچ کو بتایا کہ متنازعہ مقام پر مسلمانوں کا کبھی قضبہ تھا ہی نہیں کیونکہ ہندوؤں کا ہمیشہ سے عقیدہ رہا ہے کہ یہ رام جنم استھان ہے اور اس سے ہندوؤں کو مذہبی لگاؤ ہے لہذا Adverse Possession یعنی مخالف پارٹی کا قبضہ کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بنچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو سینئر ایڈوکیٹ سی ایس ویدیاناتھن نے کہا کہ یہ صرف مندر توڑ کر مسجد بنانے کا سوال نہیں بلکہ یہ مقام ہی ہندوؤں کے لئے مقدس ہے نیز یہ مقام کسی بھی صورت میں فروخت، منتقل اور الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رام للا براجمان کے وکیل سی ایس ودیاناتھن نے آئینی بینچ کے سامنے اپنے دلائل رکھتے ہوئے کہا کہ رام للا نابالغ ہیں ایسے میں نابالغ کی جائداد کو نہ تو بیجا جاسکتا ہے اور نہ ہی چھینا جاسکتا ہے۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

انہوں نے عدالت کے سامنے اپنی دلیل رکھتے ہوئے کہا کہ اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ وہاں کوئی مندر نہیں اور کوئی دیوتا نہیں تھے توپھر بھی لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ رام جنم بھومی پر ہی شری رام کا جنم ہوا تھا، ایسے میں وہاں مورتی رکھنا اس مقام کا تقدس بحال کرنے جیسا ہے، اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے رام للا کے وکیل نے کہا کہ متنازعہ جگہ مندر ہو یا نہ ہو مورتی ہو یا نہ ہو لوگوں کی آستھا ہونا ہی کافی ہے کہ وہ رام جنم استھان ہے، اس لئے وہاں مسجد بناکر قبضہ کے دعویٰ کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا مندر ہمیشہ مندر ہی رہتا ہے۔جائداد کو آپ ٹرانسفرنہیں کرسکتے ہیں مورتی کسی کی جائداد نہیں ہوتی، مورتی ہی دیوتا ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنم استھان ہی دیوتا ہیں اگر پراپرٹی خود ایک دیوتا ہیں تو زمین کے مالکانہ حق کا کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا ہے۔

اس پر جسٹس بوبڑے نے کہا کہ آپ کے دلائل اس طرح کے ہیں کہ مورتی کی ملکیت والی جائداد ناقابل حصول ہے اگر کوئی دوسرا شخص جائداد پر دعویٰ کرتا ہے تو وہ اسے قبضہ میں نہیں رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ جائداد ٹرانسفر والی چیز نہیں ہے۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

اسی درمیان جسٹس عبدالنظیر نے ایڈوکیٹ ویدیاناتھن سے سوال پوچھا کے کیا وقف شدہ پراپرٹی کو منتقل کیا جاسکتا ہے یا اسے جبراً کسی سے لیا جاسکتا ہ؟ جس کا تشفی بخش جواب ویدیاناتھن نہیں دے سکے لیکن انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ اس ٹاپک پر بعد میں بحث کریں گے لیکن جاتے جاتے انہوں نے کہا کہ بابری مسجد سنی سینٹرل وقف بوڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی وہ ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ سینئر ایڈوکیٹ ویدیاناتھن نے آج عدالت میں ماضی کے متعدد فیصلوں کو پڑھا نیز انہوں نے آخر میں عدالت سے کہا کہ اس معاملہ کی سماعت فل بینچ کے ذریعہ ہوئی تھی لہذا عدالت کو اس کے فیصلہ پر احتیاط سے مداخلت کرنی ہوگی۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

ویدیاناتھن کی بحث کے اختتام کے بعد سینئر ایڈوکیٹ پی این مشرا جیسے بحث کرنے کھڑے ہوئے چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ اس معاملہ میں فریق ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ میں سوٹ نمبر 4 میں مدعہ علیہ نمبر 20 ہوں اور میں رام جنم بھومی سمیتی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ ایڈوکیٹ پی این مشرا نے کہا کہ وہ اپنی بحث کا آغاز آتھروید پڑھتے ہوئے کریں گے جس میں لکھا ہے کہ ایودھیا میں مندر تھا اور اس وقت ایودھیا میں تین روڈ اور تین مینار بھی تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ان کا دعوی ہے کہ بابر نے کبھی مسجد کی تعمیر کرائی ہی نہیں تھی لیکن ہندو اس جگہ کی عبادت صدیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں نیز انہوں نے مندر کا مقام بتانے کے لیے اسکند پران، والمیکی رامائن کو پڑھا۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں یہ لکھا ہے کہ رام کا جنم ایودھیا میں ہوا تھا اس پر کسی کو اختلاف نہیں ہے لیکن اختلاف اس بات پر ہے کہ رام کا جنم کہاں ہوا تھا جس پر پی این مشرا نے کہا کہ وہی تو وہ کہے رہے ہیں کہ رام کا جنم اسی جگہ پر ہوا تھا جہاں مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔دوران بحث عدالت نے پی این مشراء کو کہا کہ مذہب اور ایمان پر بحث نہیں ہو رہی بلکہ معاملہ اس بات کا ہے کہ رام کا جنم کہاں ہوا تھا اور آیا بابری مسجد رام مندر منہدرم کر کے بنائی گئی تھی لہذا عدالت میں ایسے دلائل پیش کیے جائیں جو یہ ثابت کرتے ہوں کہ متنازعہ مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور اس پراپرٹی پر کس کا حق ہے۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

جسٹس چند ر چوڑ نے کہا کہ بینچ پی این مشراء کے دلائل کی سماعت بعد میں کرے گی فی الحال ایڈوکیٹ وی این سنہا کو بولنے کا موقع دیا جائے جو ہندو مہاسبھا کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن جب وی این سنہا نے عدالت سے کہا کہ وہ ابھی بحث کرنے کے لیئے تیار نہیں ہیں، عدالت نے ایڈوکیٹ رنجیت کمار کو حکم دیا وہ بحث کریں جو سوٹ نمبر 1 میں پیش ہو رہے ہیں۔ اسی درمیان عدالت کا وقت ختم ہوگیا اور عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کردی۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

گزشتہ کل کی سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت سے گزارش کی تھی کہ وہ رام للا اور نرموہی اکھاڑہ کے درمیان موجود تضاد کی بھی سماعت کرلے نیز سوٹ نمبر 1کی بھی سماعت ہو تاکہ اس کے بعد وہ تمام بحث کا ایک ساتھ جواب دے سکیں۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

واضح رہے کہ بابری مسجد ملکیت مقدمہ معاملہ پر صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اور دیگر سینئر وکلاء اور قانونی کمیٹی سے برابر رابطہ میں ہیں اور روزانہ کی تفصیلات معلوم کرنے اور آپسی صلاح ومشورہ کے بعد آگے کا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں، جمعیۃعلماء ہند کا پہلے دن سے یہ ماننا ہے کہ یہ ملکیت کا معاملہ ہے آستھا کا نہیں اسی لئے جمعیۃعلماء ہند نے 1950 فیض آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں دعویٰ داخل کیا تھا۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈ میٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیاو دیگر موجود تھے۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM IST