ہند نژاد امریکی خلاباز سنیتا ولیمز گزشتہ 5 جون کو بوئنگ کے اسٹارلائنر کیپسول سے خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ امریکی خلاباز بیری بوچ ولمور اور دو انجینئر بھی تھے۔ سبھی کو 13 جون 2024 کو زمین پر واپس آ جانا تھا۔ لیکن سب کچھ منصوبہ کے مطابق نہیں ہوا اور اب سنیتا ولیمز و دیگر خلاباز کی زمین پر واپسی کی راہ مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ جس کیپسول سے خلاباز خلائی اسٹیشن میں گئے ہیں، اس میں تکنیکی خامی پیدا ہو گئی ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خلابازوں کو خلائی اسٹیشن میں واپسی کے لیے طویل انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
ظاہر ہے 13 جون کو زمین پر واپسی کا ہدف رکھا گیا تھا اور آج 25 جون ہو چکا ہے، یعنی 12 دن مزید گزر چکے ہیں اور اب تک کچھ بھی صاف نہیں ہے کہ سنیتا ولیمز کی زمین پر واپسی کب ہوگی۔ امریکی خلائی ایجنسی نے اس سلسلے میں کچھ بھی واضح جواب نہیں دیا ہے، اس لیے لوگوں کی تشویش میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ اسٹارلائنر کیپسو میں ایک دو نہیں، بلکہ کئی طرح کے مسائل سامنے آئے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ہے کیپسول میں پانچ جگہ سے ہیلیم گیس کا لیک ہونا۔ ہیلیم دراصل خلائی جہاز کے پروپلشن سسٹم کو پریشر دیتا ہے۔ یعنی ہیلیم کے لیک ہونے سے پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ 5 مرتبہ تھرسٹر فیل ہونے کا معاملہ بھی پیش آیا ہے۔ ان دونوں خامیوں کی وجہ سے خلائی جہاز کا ریکشن کنٹرول سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر خلائی اسٹیشن سے سنیتا اور بیری زمین کے لیے پرواز بھرتے ہیں تو خلائی طیارہ پر ان کا کنٹرول نہیں رہے گا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگر زمین کے دائرے میں آنے سے پہلے خلائی طیارہ بے قابو ہوا تو وہ خلا میں ہی کہیں دور چلا جائے گا۔ اگر کسی طرح طیارہ زمین کے دائرے میں آ گیا تو پھر وہ بے قابو انداز میں نیچے کی طرف بڑھے گا جو خطرناک ہوگا۔
Published: undefined
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان سبھی مسائل کا پتہ ناسا اور بوئنگ کو خلائی سفر کے پہلے مرحلہ میں ہی چل گیا تھا۔ پھر ناسا اور بوئنگ نے اپنے انجینئرس کو ان مسائل کو دور کرنے کا موقع دیا۔ وہ اسے ٹھیک کرنے میں اب بھی مصروف ہیں۔ 2019 میں جب اسٹارلائنر کی پلی بغیر انسانوں والی پرواز ہوئی تھی، تب بھی اس میں سافٹ ویئر کی دقت آئی تھی۔ اس وجہ سے یہ طیارہ غلط آربٹ میں پہنچ گیا تھا۔ دوسری پرواز میں ایندھن والو میں گڑبڑی آئی تھی۔ یہ تیسرا موقع ہے جب اس طیارہ میں ہیلیم لیک کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ تھرسٹرس یعنی پروپلشن سسٹم میں گڑبڑی آنے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ ناسا نے نہ جانے کس طرح کی ٹیسٹنگ کے لیے سنیتا اور بیری کی جان کو جوکھم میں ڈال دیا۔
Published: undefined
جو رپورٹ سامنے آ رہی ہے، اس میں بتایا جا رہا ہے کہ اسٹارلائنر میں ایندھن کی صلاحیت 45 دن کی ہے۔ چونکہ مشن 5 جون کو شروع ہوا تھا تو اب تک 20 دن گزر چکے ہیں۔ اب صرف 25 دن باقی بچے ہیں اور اس مدت کار میں ناسا کے سائنسدانوں کو اپنی ہر کوشش کے ذریعہ خلابازوں کو خلائی اسٹیشن سے زمین پر لانے کا عمل انجام دینا ہے۔ فکر انگیز بات یہ ہے کہ اگر ہیلیم لیک اور ریکشن کنٹرول سسٹم میں خامی کا اثر فیوئل سسٹم پر پڑا تو ایندھن جلد بھی ختم ہو سکتا ہے۔ یعنی ان دونوں خلابازوں کو زمین پر لانے کے لیے دوسرے متبادل بھی تلاش کرنے پڑ سکتے ہیں۔
Published: undefined
ویسے ناسا کا دعویٰ ہے کہ سنیتا اور بیری خلائی اسٹیشن میں پھنسے نہیں ہیں، بلکہ دونوں میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ جب چاہیں تب خلائی اسٹیشن سے کیپسول کو اَنڈاک کر کے واپس زمین پر آ سکتے ہیں۔ انھیں وہاں اس لیے روکا گیا ہے تاکہ اسٹارلائنر کے پروپلشن سسٹم ڈاٹا کا مطالعہ کیا جا سکے، تاکہ وہ بہ حفاظت واپس آئیں۔ ناسا اسٹینڈرڈ مشن مینجمنٹ پروسیس کو فالو کر رہا ہے۔
Published: undefined
جہاں تک خلائی مسافروں کو زمین پر واپس لانے کے لیے دیگر متبادل کا معاملہ ہے، تو اس کے لیے 4 متبادل بتائے جا رہے ہیں جو اس طرح ہیں:
ناسا اپنے پرانے کمرشیل پارٹنر اسپیس ایکس اور ڈریگن-2 کیپسول کو نئے راکیٹ سے خلا میں بھیجے۔ اس کیپسول میں چار خلائی مسافر بیٹھ سکتے ہیں۔ یعنی دو انجینئر اسے لے کر خلائی اسٹیشن جائیں۔ وہاں رک کر اسٹارلائنر کو ٹھیک کریں۔ پھر دونوں خلائی طیارہ میں خلائی مسافر بیٹھ کر زمین پر آ جائیں۔ یا پھر ڈریگن-2 میں ہی بیٹھ کر سنیتا، بیری اور زمین سے گئے دو انجینئر واپس آ جائیں۔
امریکہ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے یعنی سنیتا اور بیری کو زمین پر واپس لانے کے لیے روس سے مدد مانگیں۔ ایسے میں روس اگر حامی بھرتا ہے تو وہ فوراً اپنا سویوز اسپیس کرافٹ خلائی اسٹیشن بھیج کر سنیتا، بیری اور ایک دیگر مسافر کو نیچے لا سکتا ہے۔ ایک سویوز کیپسول ہمیشہ خلائی اسٹیشن پر اسکیپ کرافٹ کے طور پر تعینات رہتا ہے۔ اگر ایمرجنسی ہو تو اس سے خلائی مسافر زمین پر واپس آ سکتے ہیں۔
امریکہ اپنے سبھی گلے شکوے دور کر کے چین سے مدد مانگے۔ چین اپنے شینزوؤ اسپیس کرافٹ کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن بھیجے۔ وہاں سے ان دونوں کو لے کر واپس زمین پر آئے۔
یوروپین اسپیس ایجنسی اور انگلینڈ ابھی اس حالت میں نہیں ہیں کہ وہ کوئی مدد کر پائیں۔ اگر کرتے بھی ہیں تو انھیں سنیتا اور بیری کو واپس لانے کے لیے ایک مہینہ کا وقت چاہیے، کیونکہ یوکرین اور روس کی جنگ کے سبب یوروپی ممالک کی حالت ابھی تھوڑا خستہ ہے۔ ان کی زیادہ توجہ اس طرف ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز