طلباء نے میدان میں اتر کر شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف چل رہے مظاہروں میں ایک جان پھونک دی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں طلبا سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور خصوصی طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا کے ساتھ ہوئی پولس بربریت نے طلباء کے اندر جیسے ایک آگ کو بھڑکا دیا ہے۔ طلباء کے ذریعہ کیے جا رہے ان مظاہروں کو مختلف سیاسی و سماجی ہستیوں کی حمایت بھی لگاتار حاصل ہو رہی ہے جن میں اب بالی ووڈ اداکارہ سورا بھاسکر کا نام بھی جڑ گیا ہے۔
Published: undefined
سورا بھاسکر نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ویڈیو شیئر کر کے طلباء کے احتجاج کی تعریف کی ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان کی جمہوریت کے لیے اس تاریک سال کے آخر دن ملک کے طلبا اور سول سوسائٹی کے اراکین کو بہت شکریہ جنھوں نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف پرامن تحریک چلائی۔ آپ لوگوں نے اس ملک کو نیند سے بیدار کیا ہے۔‘‘
Published: undefined
ٹوئٹ میں پیش کردہ ’وائس آف امریکہ‘ کے ویڈیو میں سورا بھاسکر کہتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ ’’آج کی تاریخ میں طلبا ہمارے ہیرو ہیں۔ طلبا اس ملک کی امید ہیں۔ طلبا نے ہمارے سماج کو اخلاقیات کا سبق پڑھایا ہے۔ یہ ایک ایسا سماج ہے جسے لنچنگ سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ ایک ایسا سماج بن گیا تھا جہاں لوگوں کو زندہ جلایا جا رہا تھا، انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ طلبا قابل تعریف ہیں... ہم سو رہے تھے انھوں نے ہمیں بیدار کیا ہے۔ ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمارے دور میں یہ ایک ایسا موقع ہے جس میں امیدیں ہیں، کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو لگا تھا کہ اس قدر ہندوستانی عوام متحد ہوگی... اور یہ ایک ایسی عوام ہے جو الگ الگ طبقات سے تعلق رکھتی ہے... شاید روز مرہ کی زندگی میں ہم ایک دوسرے کو ہیلو بھی نہیں بولتے... موقع ہی نہیں ملتا۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ سورا بھاسکر شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت شروع سے ہی کرتی رہی ہیں۔ اس سے پہلے دسمبر کے مہینے میں ہی شہریت قانون کے خلاف ممبئی کے اگست کرانتی میدان میں جمع ہوئے ہزاروں مظاہرین کے ساتھ اداکارہ سورا بھاسکر نے بھی اس قانون کے خلاف مظاہرہ میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت سورا بھاسکر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس ملک میں سی اے اے یا این آر سی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے پاس پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا راستہ موجود ہے اور اگر آپ اس بنیاد پر عدنان سمیع کو شہریت دے سکتے ہیں تو آپ اسی عمل کی بنیاد پر ہندو پناہ گزینوں کو شہریت کیوں نہیں دے سکتے۔ آپ کو آئین بدلنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز