سائنسدانوں نے بہت ساری حیرت انگیز اور خوبصورت چیزیں دریافت کی ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم دریافت ان تمام معلومات میں تسلسل کا تانا بانا ہے۔ کائنات اور ہمارے آس پاس کی چیزوں کے بارے میں ہزاروں معلومات سب کی سب ایک دوسرے سے جدا اور آزاد نہیں ہیں بلکہ زنجیر کی کڑی کی طرح جڑی ہوئی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ تحقیقات کی دھارا ایسی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چیزیں کم سے کم اصولوں کے استعمال سے سمجھی جا سکتی ہیں۔ اب ہم کائنات میں ہونے والے تقریباً تمام واقعات کو صرف چار قوتوں (Forces) کے اثرات کی شکل میں سمجھ سکتے ہیں۔ پچھلے پچاس سالوں میں تحقیقاتی دھارا کا خاص رخ ان چار قوتوں کو بھی یکجا کرنے کا رہا ہے جس میں خاصی کامیابی بھی ملی ہے۔ اب تک تین قوتوں کو ہم یکجا کر پائے ہیں لیکن گریویٹیشن کو ان سب کے ساتھ ملانے میں ابھی بھی کچھ دشواریاں ہیں۔ اور سب سے کامیاب تھیوری Standard Model کے نام سے مشہور ہے جس کی مدد سے بنیادی طور پر ہم گریویٹیشن کے علاوہ سبھی واقعات کو سمجھ سکتے ہیں۔
سائنسی تحقیقاتی کامیابیوں کا رخ یہ بتاتا ہے کہ قدرت نے بنیادی طور پر فضول خرچی نہیں کی اور ہم چند اصولوں کو استعمال کر کے چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس سمجھ کی ایک آسان مثال تفصیل سے نیچے بیان کی گئی ہے۔ چاک کو میں نے اس لیے نہیں چنا کیونکہ چاک اور بلیک بورڈ تمام ٹیچروں اور سائنسدانوں کا محبوب ہتھیار ہے بلکہ سائنس کے ارتقا کی تاریخ میں ایک دلچسپ بحث کا موضوع رہی ہے۔
1868 میں برطانوی سائنسداں ایک اہم کانفرنس کے لیے انگلستان کے شہر نورچ (Norwich) میں جمع ہوئے تھے۔ یہ وہ دلچسپ زمانہ تھا جب کہ عام لوگوں کی توجہ سائنس کی طرف مائل نہ صرف روز مرہ کی زندگی میں ٹیکنالوجی کے اثر کی وجہ سے تھی بلکہ اس خاص وجہ سے بھی تھی کیونکہ سائنس نے ’کائنات میں انسان کی کیا جگہ ہے‘ پر سوچنے کے انداز پر اثر ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
چارلز ڈارون کی مشہور کتاب 9 سال پہلے (1859) میں چھپی تھی جس میں زمین پر ہر طرح کی زندگی کے ارتقا کا نظریہ اس وقت کی مذہبی سمجھ کے خلاف تھا۔ ڈارون کی تحقیقات اور اس کی صداقت میں تجربات نے سائنس کو مذہب کے آمنے سامنے کھڑا کر دیا تھا۔
1868 کی اس کانفرنس میں مشہور سائنسداں ہکسلے (Thomas Henry Huxley) بھی موجود تھے اور ان کی تقریر کا موضوع ’چاک کے ٹکڑے پر‘ ہی تھا۔ وہ ایک نہایت پراثر اور جوشیلے مقرر تھے۔ ان کی شہرت ڈارون کے شیر کی تھی اور ارتقا کی حمایت میں ان سے بحث میں کسی کا بھی جیتنا مشکل تھا۔
ہکسلے نے اپنی تقریر کچھ اس طرح شروع کی، تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انگلستان، یورپ اور ایشیا کے زیادہ تر حصہ کے نیچے چاک کی پرتیں ہیں۔ چاک کیمسٹری کی زبان میں کیلشیم کا ایک کمپائنڈ ہے جس میں کیلشیم اور کاربن کا ایک ایک ایٹم اور آکسیجن کے تین ایٹم ہوتے ہیں۔ اس کو کیلشیم کاربونیٹ کہتے ہیں۔
ہکسلے نے اپنی تقریر میں یہ ذکر کیا کہ اگر چاک کی ان پرتوں کا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو ان میں لاتعداد چھوٹے کیڑے مکوڑوں کے ڈھانچے ہیں جو ان سمندروں میں رہتے تھے۔ ہکسلے نے بیان کیا کہ لاکھوں سالوں یہ ڈھانچے دھیمے دھیمے سمندر کی سطح میں پہنچ کر دبنے کے بعد چاک کی پرتوں کی شکل بن گئے۔ اور انھیں پرتوں میں کہیں کہیں بڑے سمندری جانوروں کے ڈھانچے بھی موجود ہیں۔ اور اگر ہم غور سے تجزیہ کریں تو جیسے جیسے ہم زیادہ گہرائی کی پرتوں میں چھپے ڈھانچوں میں جانوروں کی بناوٹ میں وقت گزرنے میں ہوئی تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں۔ یہ صاف طور پر لاکھوں سالوں میں ہوئی جانوروں میں ارتقا کی مختلف منزلوں کا ثبوت ہے۔
ہکسلے کی تقریر کا خاص مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ارتقا کی مختلف منزلوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری زمین کافی پرانی ہے جب کہ اس وقت کے مذہبی رہنماؤں کا خیال تھا کہ ہماری زمین صرف تقریباً 6000 سال ہی پہلے بنی ہے۔ اس قصہ کا ذکر اس لیے ضروری تھا کیونکہ یہ صاف دکھائی دیا کہ مختلف مصنوعات کے تحقیقاتی سمجھ سب آپس میں علیحدہ نہیں ہیں۔
اب پھر اہم چاک کی طرف واپس آئیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ چاک سفید ہی ہوتی ہے۔ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ کیونکہ چاک کسی اور رنگ کی نہیں ہوتی۔ لیکن اس جواب سے شیکسپیئر کے ڈرامہ کنگ لیر کا بیوقوف ہی مطمئن ہوگا۔ ہکسلے کے وقت بھی سب کو یہ معلوم تھا کہ روشنی کے مختلف رنگ روشنی کی لہروں کی مختلف ویو کی لمبائی (Wave Length) سے منسوب ہیں۔
لمبی ویو (Longer Wave Length) لال رنگ اور چھوٹی ویو (Shorter Wave Length) نیلے یا بینگنی رنگ کی ہوتی ہے۔ سفید روشنی یا رنگ سارے رنگوں کی ملاوٹ (All Wave Length) سے بنتا ہے۔
روشنی جب کسی چیز پر پڑتی ہے تو اس کا کچھ حصہ (یعنی کچھ Wave Lengths) واپس لوٹتی ہیں کچھ حصہ اس میں جذب ہو جاتا ہے۔ اس چیز کا ہم کو وہ رنگ دِکھتا ہے جو روشنی کی ویو اس میں جذب نہیں ہوتی ہے۔ کوئی پھول ہم کو لال رنگ کا اس لیے دکھتا ہے کیونکہ وہ لال رنگ کی روشنی کے علاوہ ہر رنگ کو جذب کر لیتا ہے اور صرف لال رنگ کی ویو ہی اس سے Reflect ہو کر ہماری آنکھ تک پہنچتی ہے۔
Published: undefined
چاک کے ٹکڑے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ لال رنگ سے بڑی ویو (Infra Red) اور بینگنی رنگ (Ultra Violet) سے چھوٹی ویو کو جذب کر لیتی ہے جو ہماری آنکھ ویسے بھی نہیں دیکھ پاتی۔ یعنی چاک سبھی رنگوں کی روشنی کو واپس لوٹا دیتی ہے اس لیے ہم کو سفید دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح پہاڑوں پر گرتی ہوئی برف یا سفید بادل یا روئی کا گالہ ہم کو سفید دکھائی دیتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ کچھ چیزیں کچھ خاص ویو (Wave Length) ہی کیوں جذب کرتی ہیں۔ اس سوال کے جواب کی کھوج ہم کو ایٹم اور روشنی میں قوت (Energy) کے تحقیقاتی دائرہ میں لے جاتی ہے۔
یہ تحقیقات پچھلی صدی کے دو عظیم سائنسدانوں (آئنسٹائن اور نیلس بور) کے کارناموں سے شروع ہوتی ہے۔
1905 کے ایک تحقیقاتی مضمون میں آئنسٹائن نے فوٹو الیکٹرک کو سمجھنے کی کوشش میں یہ ثابت کیا کہ روشنی کو ٹکڑوں کی شکل میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان ٹکڑوں کو فوٹون (Photon) کا نام دیا گیا۔ کسی بھی رنگ کی روشنی کر ٹکڑے کی قوت (Energy) اس کی فریکوئنسی یا دوسرے معنوں میں ویو لینتھ پر منحصر کرتی ہے۔ یعنی زیادہ (کم) فریکوئنسی (ویو لینتھ) زیادہ (کم) قوت۔ روشنی کے یہ لاتعداد ٹکڑوں کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ ان کو توڑا نہیں جا سکتا۔ یعنی کسی بھی چیز پر پڑنے والے یہ روشنی کے ٹکڑے (فوٹون) یا تو پورے کا پورا جذب ہوگا یا واپس ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے اسٹیشن پر لگی وزن لینے والی مشینیں جو ایک سکہ کو لے کر آپ کا وزن بتاتی ہیں زیادہ بڑا یا چھوٹے کئی سکہ ڈالنے پر سکہ واپس آ جاتا ہے۔ آئنسٹائن کا یہ مضمون (جس پر اس کو نوبل انعام ملا) صحیح معنوں میں کوانٹم قوانین کی شروعات تھا۔
کس قوت (Energy) یا کس رنگ کا فوٹون جذب ہوگا اس کی بنیادی سمجھ تب صاف ہوئی جب 1913 میں نیل بور (Neils Bohr) نے ایٹم کی بناوٹ کا خاکہ پیش کیا۔
1913 میں نیل بور نے ہائیڈروجن ایٹم کی خصوصیات کو سمجھنے کے لیے ایٹم کا ایک خاکہ پیش کیا جو تجرباتی ثبوتوں کے پیمانہ پر کھرا اترا۔ اس خاکہ کے مطابق ایٹم میں الیکٹرون باہر کی طرف گردش کرتا ہے۔ ہر ایٹم میں الیکٹرون کی گردش کے لیے خاص چکر ہیں اور ہر چکر سے خاص قوت ہی منسلک ہوتی ہے۔ یعنی ایٹم میں الیکٹرون کی انرجی کی خاص مقدار ہی ہو سکتی ہے اور یہ الیکٹران انھیں خاص چکروں میں گردش کر سکتا ہے۔ نیلی بور کے ایٹم کے اس خاکہ کا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ الیکٹران صرف انھیں فوٹون کو جذب کر سکتا ہے جن میں اتنی قوت ہو تاکہ وہ ایک چکر سے دوسرے چکر میں جا سکے جس میں اس کو رہنے کی اجازت ہے اور اس کی انرجی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ آنے والے فوٹون کی انرجی ہے۔ یعنی ہر انرجی کا فوٹون جذب نہیں ہوگا۔ صرف وہی فوٹون جو الیکٹران کو اتنی انرجی دے جو کہ اس کو ایک چکر سے دوسرے چکر میں جانے کے لیے درکار ہے۔ مختصراً آئنسٹائن اور نیل بور کے مقولوں کے بعد یہ بات سمجھنا آسان ہو گیا کہ کوئی ایٹم کیوں صرف خاص ویو لینتھ کی روشنی کو جذب کرتا ہے۔
تانبے (Copper) کے زیادہ تر کمپائنڈ نیلے ہرے مائل رنگ کے اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ ان میں الیکٹران آسانی سے اگلے اس چکر میں جا سکتا ہے جس کی انرجی 2 الیکٹرانک وولٹ زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کمبائنڈ آسانی سے صرف وہی فوٹون جذب کر سکتا ہے جس کی انرجی 2 الیکٹرون وولٹ ہو۔
2 الیکٹران وولٹ والے فوٹون کی ویو لینتھ 0.62 مائیکرون ہوتی ہے جب کہ ایک مائیکرون ایک میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہے۔ یہ وہ فوٹون ہے جس کا رنگ لال رنگ اور سنتری رنگ ہوتا ہے۔
نیل بور کے ایٹم کے خاکہ کے حساب سے تانبے کے کمپائنڈ رنگ کو جذب کرت لیتے ہیں اس لیے ان پر پڑنے والی سفید روشنی جب واپس ہو کر ہم کو دکھائی دیتی ہے تو اس میں لال رنگ غائب ہو کر نیلا ہرا مائل دکھائی دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح چاک سفید دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کے الیکٹرون کا کوئی چکر ایسا نہیں ہے کہ ہماری آنکھ سے دکھنے والے سات رنگوں میں سے کوئی بھی فوٹون جذب کر سکے۔
ابھی تک صرف چاک کے ٹکڑے کے سفید رنگ کی وجہ سمجھنے کے لیے ہم نے یہ دیکھا کہ سائنسی تحقیقات کی کئی دریافتوں کو ملا جلا کر استعمال کرنا پڑا۔ مثلاً روشنی کی سمجھ کے وہ ایک الیکٹرومیگنیٹک ویو ہے اور اس کا رنگ اس کی ویو لینتھ پر منحصر کرتا ہے، پھر یہ بھی کہ روشنی کے ٹکڑے (فوٹون) ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چاک کے ایٹم میں الیکٹران چند خاص چکروں میں ہی رہ سکتا ہے او ران کی خاص (Discrete) قوت ہی ہو سکتی ہے۔ نیل بور کے ایٹم کے خاکہ سے یہ راز بھی سامنے آیا کہ ایٹم کا الیکٹران صرف خاص ہی فوٹون کو جذب کر کے ایک انرجی سے دوسری انرجی والے چکر میں جا سکتا ہے۔ چاک یا کسی بھی چیز کا رنگ اسی بات پر منحصر ہے کہ وہ کس رنگ کا فوٹون جذب کرتا ہے۔
مختصراً یہ بات صاف ہوئی کہ مختلف دائروں کی سائنسی سمجھ الگ الگ نہیں ہے اور دھیمے دھیمے سچائی کی پرتیں سامنے آتی ہیں اور سائنسی تحقیقات کی دھارا زیادہ سے زیادہ بنیادی سمجھ کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر ایٹم میں الیکٹران کے لیے صرف خاص چکر اور ان کی خاص انرجی ہی کیوں ہوتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے 20ویں صدی کی حیرت انگیز انقلابی سمجھ یعنی کوانٹم میکینکس کا ذکر اگلی قسط میں ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا