16 نومبر کو شری شری روی شنکر کے ایودھیا دورے کی خبر آتے ہی رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ ایک بار پھر موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ روحانی پیشوا آخر کس سے ملاقات کریں گے اور کس حیثیت سے ملاقات کریں گے! مسلم علماء نے تو دھیمی میں آواز میں یہ سوال بھی پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ شری شری روی شنکر اس پورے کھیل میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ’مہرا‘ تو نہیں ہیں۔
ایک مسلم علماء نے اس سلسلے میں کہا کہ ’’شری شری روی شنکر 16 نومبر کو ایودھیا کیوں آ رہے ہیں؟ اس تنازعہ سے ان کا کیا لینا دینا ہے؟ بابا لوگ اس سے باہر رہیں تو بہتر ہوگا۔‘‘ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ’’شاید انھوں نے میڈیا کو دِکھانے کے لیے ایودھیا جانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے تو شری شری روی شنکر سے ملنے کی تجویز بھی مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے شری شری روی شنکر کے ایودھیا جانے کے مقصد پر انگلی اٹھائی۔ پرسنل لاء بورڈ کے وکیل اور بابری کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ’’کس حیثیت سے شری شری روی شنکر مسلم علماء سے ملاقات کریں گے جب کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ہماری ان سے ملاقات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے؟ بورڈ کے کچھ اراکین ان سے ذاتی طور پر ملاقات کر سکتے ہیں لیکن بورڈ کے رکن کی حیثیت سے کوئی ملاقات نہیں کرے گا۔‘‘
دوسری طرف پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور معروف شخصیت مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے شری شری روی شنکر سے ذاتی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ ’’وہ ہم سے ملنا چاہتے تھے اور ہم ’نا‘ نہیں کہہ سکتے۔ ہم ان کے دروازے پر نہیں گئے تھے۔ ان کے نمائندوں نے کہا کہ شری شری روی شنکر ہمارے گھر آنا چاہتے ہیں۔ اس ملاقات کا ایودھیا معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پرسنل لاء بورڈ اس معاملے میں اپنا فیصلہ لے گا۔‘‘
خصوصی ذرائع نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ شری شری روی شنکر کے پاس ایودھیا مسئلہ کو حل کرنے کا کوئی پختہ فارمولہ نہیں ہے اور مسلم طبقہ اس تنازعہ میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔ قومی آواز کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پرسنل لاء بورڈ یہ چاہتا تھا کہ پہلے شری شری وشو ہندو پریشد کو اس ایشو پر تیار کر لیں اور پھر تحریری شکل میں بورڈ سے رابطہ قائم کریں۔
وی ایچ پی کے ترجمان شرد شرما کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’ثالثی کا وقت گزر چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شری شری آ رہے ہیں لیکن یہ پوری طرح ایک ذاتی دورہ ہے۔ انھوں نے ہم سے رابطہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہم نے ان سے رابطہ کیا ہے۔‘‘ شرد شرما نے اس موقع پر یہ سوال بھی کیا کہ ’’ہمیں ثالثی کے چکر میں کیوں پڑنا چاہیے؟ وہ زمین ہندو سماج کی ہے۔ ہندو سماج اپنی ہی ملکیت پر کسی سمجھوتے کے لیے کیوں تیار ہوگا۔‘‘
واضح رہے کہ شری شری روی شنکر 14 نومبر کو لکھنو پہنچے اور 15 نومبر کی صبح انھوں نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی۔ شری شری روی شنکر کے نمائندہ سوامی بھویہ تیج کے بیان کے مطابق 16 نومبر کو 11 بجے صبح شری شری ایودھیا پہنچیں گے اور شری رام جنم بھومی نیاس کے سربراہ مہنت نرتیہ گوپال داس سے منی رام چھاؤنی میں ملاقات کریں گے۔ بعد میں وہ نیاس کے رام ولاس ویدانتی سمیت دیگر اراکین سے بھی ملاقات کریں گے۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ ویدانتی نے بھی گزشتہ دنوں اس مسئلے پر شری شری روی شنکر کے کردار پر سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’شری شری کبھی رام جنم بھومی تحریک سے جڑے نہیں رہے تو وہ ثالث کا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ وہ تو ایک بڑا این جی او چلاتے ہیں۔ روی شنکر کو رام مندر تعمیر کے معاملے پر ثالثی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
خبروں کے مطابق اپنے دورہ کے دوران شری شری اشرفی بھون میں ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری، نرموہی اکھاڑا کے مہنت رام داس اور جگت گرو رامانوجاچاریہ سوامی شری دھراچاریہ سے بھی ملاقات کریں گے۔ لیکن ایودھیا کے لیڈروں سے ان کی ملاقات بے معنی ہی نظر آتی ہے۔ اقبال انصاری کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اور سبھی عرضی دہندہ نے سپریم کورٹ کو تحریری شکل میں کہا ہے کہ سماعت جلد شروع ہونی چاہیے تو پھر ثالثی کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم اپنے گھر سے کسی کو نکال نہیں سکتے۔ شری شری ایک روحانی پیشوا ہیں اور سماج میں ان کی عزت ہے، اس لیے میں نے کہا کہ اگر وہ ہم سے ملنا چاہتے ہیں تو انھیں ہمارے گھر آنا چاہیے اور میں کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘
دراصل سپریم کورٹ نے گزشتہ 11 اگست کو کہا تھا کہ 5 دسمبر سے اس معاملے کی آخری سماعت شروع ہوگی۔ سپریم کورٹ نے چار سول معاملوں میں داخل 13 عرضیوں کی بنیاد پر سماعت شروع کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔ ان عرضیوں نے متنازعہ زمین کے تین حصے کرنے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس میں ایک حصہ نرموہی اکھاڑا کو، دوسرا رام للّا وِراجمان کو اور تیسرا سنی وقف بورڈ کو دیا گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined