سماجوادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو نے محمد علی جناح سے متعلق بیان دے کر سیاسی ماحول کو گرم کر دیا تھا۔ اس بیان پر ہوئے خوب ہنگامہ کے بعد اب سماجوادی پارٹی نے اپنی شبیہ کو بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی احتیاط کے ساتھ اپنی مسلم ووٹروں والی پارٹی کی شبیہ کو چھوڑ کر بی جے پی فرقہ وارانہ سیاست کا مقابلہ کرنے کی پالیسی بنا رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی نے بتایا کہ ’’پارٹی نے ایم-وائی (مسلم-یادو) شبیہ کو بدلنے کا سوچ سمجھ کر فیصلہ لیا ہے۔ پارٹی خود کو ایسی پارٹی کے طور پر پروجیکٹ کرنا چاہتی ہے جو ہندوؤں کے خلاف نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
اس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ پارٹی سربراہ اکھلیش یادو اب مسلم لیڈروں کے ساتھ زیادہ اسٹیج شیئر نہیں کرتے، بلکہ حال کے دنوں میں کئی مندروں کا بھی انھوں نے دورہ کیا ہے۔ اکھلیش یادو کی تقریروں میں بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ بی جے پی لیڈروں سے زیادہ بڑے ہندو ہیں۔
Published: undefined
گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران بی جے پی لیڈروں نے اکھلیش یادو کے جناح والے بیان پر انھیں خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ اکھلیش نے ایک طرح سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا سردار پٹیل اور مہاتما گاندھی سے موازنہ کیا تھا۔ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت کئی سینئر بی جے پی لیڈروں نے اس کے بعد ہی اکھلیش کو ’جناح وادی‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ اتنا ہی نہیں، ہندو جذبات کو اکسانے کے لیے بی جے پی لیڈروں نے اپنی تقریروں میں یہ تک کہنا شروع کر دیا کہ ملائم سنگھ یادو حکومت میں رام بھکتوں پر ایودھیا میں گولی چلوائی گئی تھی۔
Published: undefined
بی جے پی رکن اسمبلی نے ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بی جے پی کی پالیسی بالکل صاف ہے کہ اسے فرقہ وارانہ نفرت کا ماحول بنانا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ابھی مغربی اتر پردیش کے شاملی میں اسی کی کوشش کی۔ 2016 میں علاقہ چھوڑ کر جا چکے اور اب واپس آئے کچھ تاجروں سے آدتیہ ناتھ نے ملاقات کی۔ رکن اسمبلی نے کہا کہ ’’اپنی تقریروں میں یوگی ایک مسلم مجرم کا نام لیتے ہیں کہ کیسے ہندوؤں کو پریشان کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے اس مجرم کا نام ایک بار نہیں، درجنوں بار لیا۔ اسی سے بی جے پی کے گیم پلان کا پتہ چلتا ہے۔‘‘
Published: undefined
گزشتہ ہفتہ لکھنؤ میں سماجوادی پارٹی ہیڈکوارٹر میں ہوئی ایک میٹنگ میں طے کیا گیا کہ سماجوادی پارٹی کو اپنی شبیہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر اتفاق بنا کہ اتر پردیش کی سیاست میں ہندوتوا ہی سب سے اثردار عنصر ہے اور پارٹی کو بھی انہی چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
Published: undefined
پارٹی لیڈروں کو لگتا ہے کہ جہاں تک مسلم ووٹروں کا سوال ہے، انھوں نے موٹے طور پر سماجوادی پارٹی کو ووٹ دینے کا ذہن تیار کر لیا ہے، کیونکہ ان کا اصل مقصد بی جے پی سے چھٹکارا پانا ہے۔ پارٹی کے ایک اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ سماجوادی پارٹی کو لگتا ہے کہ کانگریس اور اے آئی ایم آئی ایم سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ مسلم ووٹ بینک میں ان کی کوئی رسائی نہیں ہے۔ اور ان دونوں پارٹیوں سے پارٹی کے مسلم ووٹ بینک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آر ایل ڈی کے ساتھ اتحاد پر پارٹی بی ایس پی کو بھی کند کرنے کی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔
Published: undefined
سماجوادی پارٹی رکن اسمبلی نے کہا کہ ’’ان حالات میں پارٹی بی جے پی کی بچھائی پِچ پر نہیں لڑ سکتی۔ اس لیے ہمیں دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑا ہے اور پارٹی نے طے کیا ہے کہ ہم ایسا گیم کھیلیں گے جس میں بی جے پی کو فرقہ وارانہ بنیاد پر کوئی موقع نہیں ملے گا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined