پٹنہ: ریاست بہار اس وقت سیلاب سے بے حال ہے۔ پانی کی سطح جیسے جیسے کم ہونا شروع ہوئی ہے، طرح طرح کی بیماریوں سے لوگ پریشان ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ ارریہ، کشن گنج، کٹیہار، سپول جیسے علاقوں کی حالت تو بہت خراب ہے ہی، دارالحکومت پٹنہ میں بھی بیماریوں نے اپنا اثر دِکھانا شروع کر دیا ہے۔ ضلع پٹنہ کے نشیبی علاقوں میں آبی جماؤ سے پریشان حال عوام میں اب سانپوں اور بیماریوں کی دہشت پھیل گئی ہے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ دہشت سانپ سے ہے جو اچانک پانی آ جانے کے سبب اپنے بلوں سے باہر آ گئے ہیں اور لوگوں کو اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں صرف پٹنہ ضلع میں ہی 196 لوگوں کو سانپوں نے اپنا نشانہ بنایا ہے۔ اس طرح کے واقعات ان علاقوں میں زیادہ رونما ہو رہے ہیں جو گنگا ندی کے کنارے بسے ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ندی کنارے رہنے والے لوگ خوف و دہشت کے سبب رات کے وقت باہر نکلنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔
ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق آبی جماؤ کے سبب بلوں میں پانی بھرنے سے سانپ باہر نکل آئے ہیں، اور جب تاریکی میں لوگ اسے دیکھ نہیں پاتے ہیں تو سانپ انھیں اپنا نشانہ بنا لیتا ہے۔ شہر کے نشیبی علاقوں اور گاؤں میں سانپ کاٹنے کے واقعات زیادہ پیش آ رہے ہیں۔ لیکن محکمہ صحت کے ذریعہ اس سلسلے میں کوئی پختہ انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ حالانکہ افسران کا کہنا ہے کہ ہر صحت مراکز پر سانپ کاٹنے کی دوائیں دستیاب کرا دی گئیں ہیں لیکن سانپ کاٹنے کے بعد لوگوں کا پہلا قدم سانپ کو مارنے کا ہوتا ہے یا پھر سپیرے کو بلانے کا۔ دراصل محکمہ کے ذریعہ اس سلسلے میں لوگوں کو بیدار کرنا چاہیے لیکن اس معاملے میں کوششیں صفر ہیں۔
آبی جماؤ کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کی بات کریں تو گزشتہ 15 دنوں میں تقریباً 23000 لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ لوگ اُلٹی، بخار، سانپ کاٹنے، ڈینگو اور سر درد کے شکار ہیں۔ پی ایم سی ایچ اور پٹنہ ضلع کے سبھی پی ایچ سی میں تقریباً 20 فیصد مریضوں کا اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیشتر مریض ایسے ہیں جو گندا پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہوئے ہیں۔ دراصل آبی جماؤ اور بارش کے بعد زیادہ تر علاقوں میں پینے کا جو پانی فراہم کیا جا رہا ہے وہ قابل استعمال نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined