یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے انتہائی پر جوش انداز میں کانگریس کے 84ویں پلینری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مودی حکومت کی سخت الفاظ میں تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندرمودی بدعنوانی کے خلاف جو’ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘ کا نعرہ دیا تھا وہ محض کرسی ہتھیانے کے لئے ڈرامےبازی تھی۔
سونیا گاندھی نےکانگریس کے نئے صدر راہل گاندھی کو صدر بننے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے پہلے میں ہمارے نئے صدر راہل گاندھی کو مبارک باد پیش کرتی ہوں اور ان کو نیک خواہشات دیتی ہوں، میں ان کا استقبال کرتی ہوں۔ انہوں نے بہت ہی چیلنج بھرے وقت میں یہ ذمہ داری سنبھالی ہے‘‘۔ انہوں نے اس موقع پر کانگریس کارکنان سے کہا کہ ’’ یہ وقت اپنے نجی مفادات اور خواہشات کے بارے میں سوچنے کا نہیں ہے۔ یہ وقت یہ دیکھنے کا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص پارٹی کے لئے کیا کر سکتا ہے‘‘۔
سونیا گاندھی نے پارٹی کو مضبوط بنانے کی ضرور ت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ا ٓج محض ایک بات معنی رکھتی ہے کہ جس پارٹی سے ہمارا اتنا پرانا ناطہ ہے اسے مزید کس طرح مضبوط کیا جا سکے ۔جس سے موجودہ چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکے اور پارٹی کی جیت ہوسکے۔پارٹی کی جیت ملک کی جیت ہوگی، ہم سب کی جیت ہوگی۔ کانگریس محض ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایک تحریک رہی ہے۔کانگریس ہماری قومی زندگی کا 133 سالوں سے اس لئے ایک جز ہے کیوں کہ اس میں ہندوستان کی ثقافت کی پوری تصویر نظر آتی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کانگریس آج نئے صدر کی قیادت میں وہ پارٹی بنے جو ایک بار پھر ہمارے ملک کا بنیادی ایجنڈہ طے کرے۔ کانگریس وہ پارٹی بنے جو کہ سماج کے ہر طبقہ کی امیدوں اور خواہشات کی نمائندگی کرے۔ کانگریس وہ پارٹی بنے جو ایک بار پھر سیاسی اور سماجی ڈائیلاگ کو آگے بڑھائے‘‘۔
40 برس پہلے چک منگلور میں اندرا جی کی شاندار جیت کا ذکر تے ہوئے سونیا نےکہا کہ ’’اس جیت نے ملک کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا تھااور کانگریس پھر ایک طاقتور پارٹی بن کر ابھری۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آئندہ ہونے والے کرناٹک کے انتخابات میں ہماری پارٹی شاندار مظاہرہ کرے گی ، تاکہ ملک کی سیاست کو نئی سمت ملے۔ گجرات، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے وجود کو مٹانا چاہتے تھے انہیں یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ ابھی تک لوگوں کے دلوں میں کانگریس کی کتنی عزت ہے‘‘۔
پارٹی میں اپنی صدارت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ مجھے دو عشروں تک کانگریس صدر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں سیاست میں نہیں آنا چاہتی تھی لیکن حالات نے مجھے اس میں آنے کے لئے راغب کیا۔ ایک ایسی دنیا میں جس میں کبھی نہیں آنا چاہتی تھی لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ پارٹی کمزور ہو رہی ہے اور ہمارے بنیادی اصول خطرے میں ہیں تب کانگریس کے لوگوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے میں نے کانگریس کی قیادت کو سنبھالا۔ ایک ایک قدم بڑھا کر ہم نے 1998 سے 2004 کے بیچ بہت سی ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں بنائیں۔ ان حکومتوں کی کامیابیوں نے پارٹی کو مضبوط بنایا اور پارٹی کو حوصلہ اور قوت ملی‘‘
Published: 17 Mar 2018, 5:31 PM IST
1998 کے پنچ منی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اس اجلاس میں یہ رائے بنی تھی کہ کانگریس کو کسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کرنا چاہئے لیکن بدلتی سیاسی صورت حال کےپیش نظر ہم نے سال 2004 میں یکساں نظریات والے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا اور وہ منزل حاصل کی جو لوگوں کو ناممکن لگ رہا تھا۔ کانگریس نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے کی حکومت بنائی۔ اس دوران ہم نے بے شمار کامیابیاں حاصل کیں اور یہی وجہ ہے 2009 میں بھی ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔
منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اےحکومت کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’منموہن سنگھ کی قیادت میں اقتصادی میدان میں تاریخی قدم اٹھائے گئے اور قانون بنائے گئے۔ منریگا، جنگلات حقوق قانون، تحفظ غذا کا قانون اور اطلاعات کا قانون جیسے کئی قوانین لاگو کئے گئے۔ ان قوانین سے کروڑوں کروڑوں لوگوں کی زندگی میں بدلاؤ آیا۔ یو پی اے نے جو قوانین منظور کئے تھے این ڈی اے حکومت انہیں کمزور کرنے میں مصروف ہے۔ 4 سال میں کانگریس کو تباہ کرنے کے لئے مغرو راور اقتدار کے نشہ میں چور حکومت نے کوئی کثر باقی نہیں رکھی۔ ہر طرح کے حربے اختیار کئے گئے۔ لیکن اقتدار کے غرور کے آگے نہ تو کبھی کانگریس جھکی ہے اور نہ ہی کبھی جھکے گی۔‘‘
وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف کانگریس کی لڑائی کے حوالہ سے سونیا گاندھی نے کہا کہ’’مودی حکومت کا تاناشاہی رویہ ، آئین کی غیر توجہی، پارلیمنٹ کی بے حرمتی ، لوگوں کو بانٹنے کی پالیسی ، اپوزیشن کے خلاف فرضی مقدمات قائم کرنا اور میڈیا کو ستانا جیسی سازشوں کا پردہ فاش کرنے میں کانگریس صف اول میں رہ کر جد و جہد کر رہی ہے۔ مودی اور ان کے معاونین کے جھوٹے، فرضی دعوؤں اور فراڈ کا ہم ثبوتوں کے ساتھ انکشاف کر رہے ہیں۔ لوگ اب سمجھ گئے ہیں کہ 2014 کے’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘، ’میں نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘، جیسے وعدے صر ف اور صرف ڈرامہ بازی اور ووٹ ہتھیانے کی چال تھے۔ کرسی پر قضبہ کر نے کی چال تھی‘‘۔
کانگریس کارکنان سے سیدھے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ کانگریس کی طویل ، شاندار اور مؤثر تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے اور ایک سخت جدوجہد بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہم سبھی کے سامنے جو چیلنجز ہیں وہ معمولی نہیں ہیں ان کا ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسا ہندوستان بنانے کے لئے جدو جہد کرنی ہے جو اقتدار کے خوف سے پاک ہو۔ جو اقتدار کی منمانی سے پاک ہو ۔ ایک ایسا ہندوستان جس میں ہر شہری کی حرمت برقرار رہے۔ جانبازی سے پاک ہندوستان ۔ بدلے سے پاک ہندوستان۔ ہاہاکار سے پاک ہندوستان۔ اس کے لئے ہر ایک کانگریسی کو ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہے۔ اسی لئے ہم کانگریس کے نئے صدر راہل گاندھی کی قیادت میں آج پورے اعتماد کے ساتھ ایک عزم کریں ۔ ایک ایسا ہندوستان بنانے کے لئے ہم جد وجہد کریں گے ، ہر قربانی دیں گے اور کانگریس کو کامیابی کی بلندی تک لے کر جائیں گے‘‘۔
کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی جب خطاب کرنے اسٹیج پر آئیں تو جلسہ گاہ میں موجود لوگوں نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا ، لیکن جب ان کا خطاب ختم ہوا تو لوگ اتنے زیادہ متاثر تھے کہ بے ساختہ کھڑے ہو کر ان کے خطاب کا استقبال کیا۔
Published: 17 Mar 2018, 5:31 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Mar 2018, 5:31 PM IST