اتر پردیش کے بہرائچ میں بھیڑیوں کی دہشت نے دیہی لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ اس خونخوار جانور کا جھنڈ گزشتہ کئی دنوں سے یہاں کے 50 گاؤں کو اپنے نرغے میں لیے ہے اور انسانوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے جس میں خاص طور پر بچے شامل ہیں۔ اس کے حملے میں اب تک 8 بچوں سمیت 10 لوگوں کی موت ہوگئی ہے جبکہ 20 سے زیادہ لوگ بُری طرح زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حالانکہ اب تک 6 میں سے 5 بھیڑیوں کو پکڑ لیا گیا ہے جس میں گزشتہ روز ہی پانچویں بھیڑیے کو محکمہ جنگلات نے دھر دبوچا تھا۔ لیکن لوگوں نے جیسے ہی تھوڑی راحت کی سانس لی چھٹے بھیڑیے نے اپنے حملے تیز کر دیے اور 11 سال کی دو بچیوں کو شدید طور پر زخمی کر دیا۔
Published: undefined
اپنے ساتھی کے پکڑے جانے کے بعد زیادہ خونخوار ہو چکے چھٹے 'لنگڑے' بھیڑے نے منگل کی دیر رات دو گاؤں پر حملے کیے جس میں 11 سال کی دو بچیاں زخمی ہوگئیں جو الگ الگ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ آدم خور نے گدیرن پوروا گاؤں کی 11 سال کی سُمن اور کھیری گھاٹ کی شیوانی کو اپنا نشانہ بنایا۔ سمن کا علاج بہرائچ کے ضلع اسپتال میں چل رہا ہے جبکہ شیوانی سی ایچ سی کے مہسی میں بھرتی ہے۔
Published: undefined
پہلے بھی دیکھا گیا ہے کہ ان آدم خوروں کے جھنڈ کا کوئی بھیڑیا پکڑا جاتا ہے تو یہ اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں اور حملے تیز کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوا جب گزشتہ رات مادہ بھیڑیا کو پکڑا گیا تو اس کے بعد دیر رات نر بھیڑیا نے حملہ شروع کر دیا۔ محکمہ جنگلات کے افسران نے بتایا کہ مہسی تحصیل میں 17 جولائی سے چل رہے 'آپریشن بھیڑیا' مہم کے تحت منگل کو پانچواں بھیڑیا پکڑا گیا، اب چھٹے بھیڑیے کی تلاش جاری ہے۔ ڈویژنل فاریسٹ آفیسر اجیت پرتاپ سنگھ نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جھنڈ کا آخری بھیڑیا جو لنگڑا ہے اسے پکڑنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی یہ گرفت میں ہوگا۔
Published: undefined
آدم خور بھیڑیوں کو پکڑنے کے لیے بہرائچ، کترنیا گھاٹ وائلڈ لائف، شراوستی، گونڈا اور بارابنکی کی تقریباً 25 ٹیمیں لگی ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے بہرائچ میں بھیڑیوں سے لوگوں کو بچانے کے لیے 200 پولیس ملازمین اور دیکھ کر ہی مار گرانے والے 18 شوٹروں کو ان گاؤں میں تعینات کیا گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined