قومی خبریں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حالات کشیدہ، طلبا و اساتذہ متحد، انٹرنیٹ 5 مئی تک بند

اے ایم یو طلبا کا کہنا ہے کہ وہ یونیورسٹی سے کسی بھی صورت میں محمد علی جناح کی تصویر نہیں ہٹائیں گے کیونکہ وہ یہاں کے لائف ٹائم ممبر ہیں اور ان کا یہاں سے رشتہ بہت گہرا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہندو شدت پسند تنظیم کے کارکنان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے علیگ برادری اور ان کے حامی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا تنازعہ لگاتار بڑھتا جا رہا ہے اور کیمپس میں حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ محمد علی جناح کی تصویر پر شروع ہوئے اس ہنگامہ نے کافی شدت اختیار کر لی ہے اور ہندو تنظیموں نے ماحول خراب کرنے کی جو کوشش گزشتہ دنوں شروع کی تھی اس میں پولس انتظامیہ نے ان کی مدد کر کے حالات کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ اے ایم یو طلبا ہندوتوا ذہنیت کے حامل شدت پسند اور مسلح افراد کے ذریعہ یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے کو لے کر جتنا ناراض ہیں، اتنا ہی ناراض پولس انتظامیہ کی جانبدارانہ کارروائی کو لے کر بھی ہیں۔

آج ایک طرف ہزاروں اے ایم یو طلبا بابِ سید کے دروازے پر سراپا احتجاج نظر آئے اور یونیورسٹی میں ہنگامہ برپا کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے دھرنا جاری رکھا، وہیں دوسری طرف ضلع مجسٹریٹ نے 4 مئی کو دوپہر 2 بجے سے 5 مئی کو 12 بجے رات تک کے لیے علی گڑھ میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ حیرانی کی با ت یہ ہے کہ ضلع مجسٹریٹ نے اس حکم نامہ میں جس طرح کے الفاظ کا استعمال کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اے ایم یو کے طلبا شرپسندی پر آمادہ ہیں اور انھوں نے ہی ماحول خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔

Published: undefined

انٹرنیٹ خدمات بند کرنے سے متعلق جاری ضلع مجسٹریٹ کا حکم نامہ

ہندو تنظیموں کے ذریعہ اے ایم یو سے محمد علی جناح کی تصویر ہٹائے جانے کے معاملے پر یونیورسٹی کی طلبا یونین کے ساتھ ساتھ ٹیچرس ایسو سی ایشن نے بھی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے جمہوریت کے منافی قرار دیا ہے۔ طلبا یونین کے عہدیداران نے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ ابو ہریرہ سے بات چیت میں کہا کہ ’’ہم ہر حال میں محمد علی جناح کی تصویر نہیں ہٹائیں گے۔ وہ اے ایم یو کے لائف ٹائم ممبر ہیں اور ان کا رشتہ یونیورسٹی سے بہت گہرا ہے۔‘‘ دھرنے پر بیٹھے کچھ طلبا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممبئی میں جناح ہاؤس ہے اور ملک کی پارلیمنٹ میں بھی محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے، جب اس کے خلاف آواز نہیں اٹھتی تو پھر اے ایم یو میں جناح کی تصویر ہونے سے کسی کو اعتراض کیوں؟

Published: undefined

تصویر سوشل میڈیا

اے ایم یو کے ماحول کو سازگار بنانے اور دھرنا و مظاہرہ کر رہے طلبا کے حق میں یونیورسٹی کے اساتذہ نے بھی آج مارچ نکالا۔ اس موقع پر انھوں نے ضلع مجسٹریٹ کو میمورینڈم بھی پیش کیا۔ ان اساتذہ نے صدر جمہوریہ سے پورے معاملے کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یونیورسٹی کی فضا کو زہر آلود کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اے ایم یو طلبا کے حق میں صرف علی گڑھ کے لوگ ہی کھڑے نہیں ہو رہے ہیں بلکہ 12 یونیورسٹیاں ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہیں۔ اتنا ہی نہیں 8 ممالک سے ان کی حمایت میں خطوط موصول ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اے ایم یو کی تہذیب کی بقا کی لڑائی لڑ رہے لڑکوں کا ساتھ دینے کے لیے گرلز کالج کی لڑکیاں بھی میدان میں اتر گئی ہیں۔ 200 سے زائد لڑکیاں اے ایم یو میں نظر آ رہی ہیں جن میں طلبا صدر نبا نسیم بھی پیش پیش ہیں۔

Published: undefined

تصویر سوشل میڈیا

حق کی لڑائی میں متحد اے ایم یو طلبا کا ساتھ اے ایم یو ٹیچرس ایسو سی ایشن زور و شور سے دے رہا ہے۔ ایسو سی ایشن کے سکریٹری کا کہنا ہے کہ ’’ہم سبھی اے ایم یو کے وقار کو بچانے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ جمہوریت پر حملہ ہے اور اس کے خلاف متحد ہونا ضروری ہے۔‘‘ گزشتہ دن پولس کی لاٹھی چارج میں زخمی اے ایم یو طلبا یونین کے صدر مشکور عثمانی آج وہیل چیئر پر میڈیا کے سامنے آئے۔ انھوں نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے ایم یو طلبا پر حیرت انگیز اور ظالمانہ طریقے سے حملہ کیا گیا اور ایسا یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ انھوں نے ہماری گردن اور ٹانگوں پر حملہ کیا۔‘‘

اے ایم یو کے وائس چانسلر طارق منصور نے آج نمازِ جمعہ سے قبل دھرنا و مظاہرہ کر رہے طلبا سے ملاقات کی اور ان سے دھرنا ختم کرنے کی گزارش کی۔ انھوں نے کہا کہ دھرنا ختم کر دیں اور اپنے مطالبات تحریری شکل میں دیں۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت اور پولس انتظامیہ کو پورے حالات سے واقف کرا دیا گیا ہے اور ان سے مناسب کارروائی کی اپیل کی گئی ہے۔ لیکن طلبا نے دھرنا ختم نہیں کیا بلکہ انھیں بھی اے ایم یو کے وقار کی لڑائی میں ساتھ دینے کی اپیل کی۔ ساتھ ہی وائس چانسلر کو ساتھ میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی دعوت بھی دی۔ طارق منصور کے ساتھ ان کی بیگم ڈاکٹر حمیدہ طارق بھی موجود تھیں۔

Published: undefined

تصویر سوشل میڈیا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined