بی جے پی رکن پارلیمنٹ برج بھوشن کے خلاف پہلوانوں کا احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ برج بھوشن کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے ناراض پہلوانوں نے 30 مئی کو اپنا میڈل گنگا ندی میں بہانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن کسان لیڈر نریش ٹکیت نے کسی طرح انھیں سمجھا کر میڈل نہ بہانے کے لیے راضی کیا۔ اس سلسلے میں ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی پوری طرح خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، اور دوسری طرف بڑی تعداد میں سیاسی و سماجی لیڈران پہلوانوں کی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں۔ کانگریس لگاتار ان خواتین پہلوان کی حمایت میں کھڑی دکھائی دے رہی ہے جنھوں نے برج بھوشن کے خلاف جنسی استحصال کا الزام عائد کیا ہے۔
Published: undefined
کانگریس لیڈر دیپیندر سنگھ ہڈا نے اس سلسلے میں آج ایک پریس کانفرنس بھی کیا جس میں کہا کہ ’’آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کل جو ہماری بیٹیاں، ہمارے کھلاڑی اپنے میڈل لے کر ہریدوار پہنچے، ان کے دلوں میں کتنی تکلیف ہوگی، کتنی ٹیس ہوگی۔ یہ میڈل کسی بھی کھلاڑی کے لیے اس کی جان ہوتے ہیں، یہ اس کی صلاحیت، محنت کی علامت ہیں، اس کے گھر والوں کی قربانیوں کی علامت ہیں، ملک کے وقار کی علامت ہیں۔ ان میڈلس میں ان کھلاڑیوں کے اکھاڑوں کی مٹی کی خوشبو آتی ہے، ان کی پسینے کی خوشبو ان میڈلس میں سے آتی ہے، اور ان میڈلس کو بہانا کسی بھی کھلاڑی کے لیے اپنی جان دینے سے کم نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
مرکز کی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ہڈا نے کہا کہ ’’یہ کیسی حکومت ہے جس نے ان (پہلوانوں) کو مجبور کر دیا یہ سوچنے پر کہ میڈل گنگا ندی میں بہا دیا جائے۔ ہم وزیر اعظم مودی جی سے اور حکومت سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی اپیل کیوں نہیں ہوئی۔ جب یہ کھلاڑی میڈل لے کر آتے تھے تو وزیر اعظم سے لے کر وزیر کھیل تک ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے لائن لگا دیتے تھے، آج انھوں نے کچھ کیوں نہیں بولا۔ دنیا میں کیا پیغام گیا یہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا کہ آپ کے ساتھ انصاف ہوگا، ہم غیر جانبدارانہ جانچ کرائیں گے اس لیے ایسا مت کیجیے۔‘‘ کانگریس لیڈر نے اس بات پر بھی حیرانی ظاہر کی کہ برج بھوشن سنگھ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ میڈلس تو 15 روپے میں مل جاتے ہیں۔ دیپیندر ہڈا نے کہا کہ ’’اگر ایسا ہے تو یہ ملک اور کانگریس پارٹی جتنے وہ کہیں گے ہم اتنے روپے ان کو دیتے ہیں، وہ اولمپک کے میڈل خرید کر دکھائیں۔‘‘
Published: undefined
پریس کانفرنس سے مشہور باکسر اور کانگریس لیڈر وجیندر سنگھ نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’جیسے ہی کل میں نے کل خبر دیکھی کہ ہماری بہنیں ساکشی اور ونیش پھوگاٹ اپنے میڈل گنگا ندی میں بہانے جا رہی ہیں، تو مجھے ایکدم محمد علی صاحب کی یاد آ گئی۔ محمد علی صاحب ایک مشہور مکہ باز رہے ہیں، جن کو کیسیس کلے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب ان کے اوپر امریکہ میں گورے-کالے کی پالیسی چل رہی تھی اور ان کو ایک ریسٹورینٹ میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا تو انھوں نے بتایا تھا کہ میں اولمپک میڈلسٹ ہوں۔ تب انھوں نے ان کو باہر پھینک کر مارا اور بولا کہ تیرے جیسے اولمپک میڈلسٹ بہت آتے ہیں۔ تو اس بات سے افسردہ ہو کر انھوں نے اپنا اولمپک میڈل اوہیو ندی میں پھینک دیا تھا۔ اس کے بعد جو انقلاب آیا تھا پورے امریکہ میں وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
وجیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے یہاں الٹا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں جب ہماری بہنیں اولمپک میڈل ندی میں پھینکنے جاتی ہیں تو وہاں سب سے پہلے ان کا مذہب پوچھا جاتا ہے کہ ہندو ہے، یا مسلم ہے۔ جب پتہ چلتا ہے کہ ہندو ہیں تو پھر ان کو ذات میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اچھا تم جاٹ ہو، اچھا تم یہ ہو، اور تم وہ ہو۔ بہت ساری چیزیں دیکھی جاتی ہیں، پھر یہ آئی ٹی سیل کا حصہ بتا دی جاتی ہیں۔ پھر بہت سارے لوگ آتے ہیں جو آئی ٹی سیل کی ٹیمیں ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کہ... ہم آپ کو یہاں میڈل نہیں بہانے دیں گے۔ اس سے ہماری گنگا ندی آلودہ ہو جاتی ہے۔‘‘ پھر کانگریس لیڈر کہتے ہیں کہ ’’یہ سب دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز