اس وقت ہندوستان میں اگر کوئی موضوع میڈیا اور عوام میں چھایا ہوا ہے تو وہ بلا شبہ کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق صدر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ہے۔ اس یاترا کی شہرت اب ملکی حدود سے نکل کر دوسرے ملکوں تک بھی پہنچ گئی ہے اور بین الاقوامی میڈیا بھی اس کی خاصی کوریج کر رہا ہے۔ جس وقت یہ یاترا شروع ہوئی تھی اس وقت بھی اسے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ لیکن وقت کے گزرنے اور منزل مقصود کے قریب سے قریب تر ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت و مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور مقبولیت کا گراف چڑھتا چلا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی کی اس یاترا نے کانگریس کے کارکنوں اور رہنماوں میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا ہے اور اب تو وہ لوگ دوبارہ کانگریس میں واپس آ رہے ہیں جو اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
Published: undefined
اس صورت حال اور راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافے اور ان کی امیج میں مثبت تبدیلی سے حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت اور بی جے پی اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے تو راہل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن آر ایس ایس نے بڑی چالاکی سے یاترا کی حمایت کر دی ہے۔ رام مندر ٹرسٹ کے چیئرمین چمپت رائے نے یہ کہہ کر کہ ایک نوجوان اس سردی میں ملک میں یاترا کر رہا ہے لہٰذا اس یاترا کی حمایت کی جانی چاہیے اور یہ کہ آر ایس ایس نے کبھی بھی اس یاترا کی مذمت نہیں کی، یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ نفرت اور خوف کے خلاف ہے۔ لیکن دراصل یہ آر ایس ایس کا خوف ہے جس کا اظہار یاترا کی حمایت کی شکل میں ہوا ہے۔ اگر وہ مخالفت کرتا تو بے نقاب ہو جاتا۔
Published: undefined
اسی طرح رام جنم بھومی مندر کے ہیڈ پجاری آچاریہ ستیندر داس نے تو تحریری شکل میں یاترا کی حمایت کی اور راہل گاندھی کو آشیرواد دیا۔ انھوں نے راہل کے نام ایک خط میں کہا کہ وہ صحت مند رہیں اور طویل عمر پائیں۔ ان پر رام للا کی کرپا ہمیشہ بنی رہے۔ دراصل آچاریہ سیندر داس کا تعلق نہ بی جے پی سے ہے، نہ آر ایس ایس سے ہے اور نہ ہی وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے ہے۔ لہٰذا ان کی حمایت اور آشیرواد کو ساسی چالبازی نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے خلاف ہیں۔ لہٰذا انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس میں خلوص کی آمیزش ہے۔ لیکن ان کے آشیرواد نے وشو ہندو پریشد کے پیٹ میں مروڑ پیدا کر دیا ہے۔
Published: undefined
اس تمام صورت حال کے درمیان ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ جس طرح راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کر رہے ہیں اور خوف اور نفرت کی جگہ پر محبت کا پیغام پھیلا رہے ہیں کیا وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اسی قسم کی کوئی یاترا کرنی چاہیے۔ یہ سوال دراصل ایک یوٹیوب چینل پر اٹھایا گیا۔ اینکر نے پانچ ایسے مبصرین کے پینل کے سامنے جو انتہائی سینئر صحافی اور دانشور مانے جاتے ہیں، یہ سوال رکھا۔ اس سوال پر جو تبصرے ہوئے وہ چشم کشا ہیں۔ ان تبصروں سے یہ اندازہ ہوا کہ تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ موجودہ حکومت، آر ایس ایس، بی جے پی اور خود وزیر اعظم کے تعلق سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔
Published: undefined
تقریباً تمام صحافیوں نے بیک زبان کہا کہ خدا کرے کہ مودی یا بی جے پی یا آر ایس ایس کا کوئی شخص یاترا نہ نکالے۔ کیونکہ سنگھ پریوار کے جو نظریات ہیں وہ محبت کو فروغ دینے کے بجائے نفرت کو فروغ دینے والے ہیں۔ اس کے نظریات عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے اپنا الو سیدھا کرنے والے ہیں۔ اگر یہ لوگ کوئی یاترا نکالیں گے تو وہ نفرت اور خوف و ہراس میں اضافہ کرے گی محبت میں نہیں۔ اس تعلق سے انھوں نے تاریخ پر بھی نظر ڈالی اور بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے آڈوانی کی یاترا کا بطور خاص حوالہ دیا۔
Published: undefined
انھوں نے کہا کہ ایک موقع تھا جب بابری مسجد کے خلاف سنگھ پریوار کی جانب سے تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک کے دوران ایل کے آڈوانی نے ستمبر اکتوبر 1990 میں سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا نکالی تھی۔ اس رتھ کے سارتھی اس وقت کے بی جے پی لیڈر اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تھے۔ یہ یاترا جہاں جہاں سے گزری وہاں وہاں فسادات ہوئے۔ وہ خون کی لکیریں کھینچتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس وقت کے بہار کے وزیر اعلیٰ لالو یادو نے سمستی پور میں اس یاترا کو روک دیا اور آڈوانی کو گرفتار کر لیا۔ ورنہ اگر یاترا ایودھا تک جانے میں کامیاب ہوئی ہوتی تو جانے کتنی انسانی جانیں اور ضائع ہوئی ہوتیں۔
Published: undefined
ان مبصرین نے کہا کہ بی جے پی کے سابق صدر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے بھی کنیا کماری سے کشمیر تک یاترا نکالی تھی۔ ان کی یاترا نے بھی کوئی خوشگوگر اثر نہیں چھوڑا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ دونوں یاتراؤں میں محبت کی بات کا کہیں گزر ہی نہیں تھا۔ جب آپ ایک خاص مذہب کی علامت کو استعمال کریں گے اور ٹویوٹا گاڑی کو رتھ کی شکل دیں گے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ دوسرے مذاہب کے خلاف کام کر رہے ہیں اور ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے دلوں میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں۔
Published: undefined
ان دانشوروں نے زور دے کر کہا کہ بھگوان کرے کہ مودی وغیرہ کے دل میں یاترا نکالنے کا خیال نہ آئے ورنہ ملک میں فسادات ہونے لگیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ آڈوانی کی رتھ یاترا کے اصل حکمت ساز نریندر مودی ہی تھے۔ ذرا سوچیے کہ اُس وقت جبکہ اقلیتوں کے خلاف ماحول اس قدر خراب نہیں ہوا تھا اس کے باوجود جگہ جگہ فسادات ہوئے تھے۔ آج تو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہندووں کے بڑے طبقے کے ذہنوں میں زہر بھر دیا گیا ہے۔ اگر آج بی جے پی کا کوئی لیڈر یاترا نکالے گا تو وہ اس ماحول کو اور بھی زہریلا بنانے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ یہ لوگ کوئی یاترا نہ نکالیں۔
Published: undefined
دو ایک تجزیہ کاروں نے تو خوب چٹکی لی۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی تو بھکتوں کے نزدیک بھگوان کے اوتار ہیں۔ بہت سے تعلیم یافتہ افراد اور یہاں تک کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ مودی بھگوان کے اوتار ہیں۔ مودی بھی خود کو اوتار ہی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایک اوتار کو یاترا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک اوتار مل گیا جو اس وقت حکومت کر رہا ہے اور جس نے اس کو وشو گرو بنا دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ وشو گرو لوگوں کو ملازمتیں نہیں دے پا رہا ہے۔ روزگار نہیں دے پا رہا ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں لاکھوں افراد کا روزگار چھن گیا ہے۔ ملازمتیں چلی گئی ہیں۔ اسی کروڑ لوگ بھوکے ہیں۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ ایک اوتار حکومت کر رہا ہے۔
Published: undefined
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر غریب اور غریب اور امیر اور امیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک کی دولت چند دھنا سیٹھوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ غریبوں کی محنت کی کمائی دولت مند افراد لوٹ کر دوسرے ملکوں میں فرار ہو رہے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر کالے دھن کی واپسی کے بجائے اس میں اور اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ملکی صنعتیں ٹھپ ہوتی جا رہی ہیں۔ بھارت تو وشو گرو بن گیا ہے نا۔ لہٰذا اس وشو گرو کے جنم داتا کو یاترا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
Published: undefined
ایک مبصر نے کہا کہ راہل گاندھی نے نفرت کے ماحول کو اس طرح مٹا دیا ہے کہ جیسے چراغ تاریکی کو ختم کر دیتا ہے۔ انھوں نے اس سوال پر بھی اظہار خیال کیا کہ راہل کو سردی کیوں نہیں لگ رہی ہے اور کیا وجہ ہے کہ یو پی کے نائب وزیر اعلیٰ نے اس معاملے پر ریسرچ کرانے کا اعلان کیا۔ مذکورہ دانشور کے بقول راہل گاندھی کے اندر تین تین وزرائے اعظم کا ڈی این اے ہے۔ ان کے خاندان کے دو دو وزرائے اعظم ملک کے لیے شہید ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے لوگ ان کا کیا مقابلہ کر پائیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز