مدھیہ پردیش کے کھرگون میں آٹھویں جماعت میں پڑھنے والے ایک 12 سالہ بچے کو فسادات میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے 2.9 لاکھ روپے ادا کرنے کا نوٹس دیا گیا ہے۔ وہیں، بچے کے والد کالو خان سے 4.8 لاکھ روپے معاوضہ طلب کیا گیا ہے۔ خان یومیہ مزدور ہیں اور کلیمز ٹریبونل نے یہ کارروائی ایک خاتون کی شکایت کے بعد کی ہے۔
Published: undefined
اس کارروائی کے حوالے سے بچے کی والدہ کا کہنا ہے کہ نوٹس ملنے کے بعد سے ان کا بیٹا صدمہ میں ہے اور اسے ڈر ہے کہ کہیں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ جبکہ والد کالو خان نے کہا ’’میرا بیٹا نابالغ ہے۔ جب فساد ہوا تو ہم سو رہے تھے۔ ہمیں انصاف چاہیے۔‘‘
خیال رہے کہ کھرگون میں رام نومی کے موقع پر تالاب چوک سے جلوس نکالا گیا تھا۔ اس دوران دو فرقوں میں تصادم ہوا اور کئی مقامات پر پتھراؤ اور آگزنی کی گئی۔ کئی لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا۔ حکومت نے فسادات میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے ایک ٹریبونل تشکیل دیا۔ فسادات متاثرین کی شکایت پر کئی لوگوں کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔
Published: undefined
دراصل اپریل میں فسادات کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کہا تھا کہ جس نے بھی پتھراؤ کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا انہیں سزا دی جائے گی، تاہم ان سے سرکاری یا نجی جائیداد برآمد بھی کی جائے گی۔ چنانچہ ایک خاتون کی شکایت پر ایک 12 سالہ بچے کو نوٹس بھیجا گیا ہے، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ 10 اپریل کو رام نومی کے دن ایک ہجوم کے ذریعہ اس کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔
بچے کے والدین نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، تاہم عدالت نے انہیں دعویٰ اتھارٹی کے سامنے اپنا ہی اپنا مقدمہ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ وکلا کا کہنا ہے کہ اتھارٹی نے ان کے دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہی معاملہ دیوانی کا ہے۔
Published: undefined
خاندان کے وکیل اشعر علی وارثی نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ٹریبونل نے قانون کے مینڈیٹ کو نافذ کیے بغیر منمانی سے کام کیا۔ جب لڑکے نے ٹربیونل کے سامنے اپنا اعتراض دائر کیا تو اسے ضابطہ دیوانی کی مبہم بنیادوں پر خارج کر دیا گیا۔
اس واقعہ پر کانگریس کے ترجمان کے کے مشرا نے کہا، ’’ٹریبونل بی جے پی کی توسیعی شاخ کی طرح کام کر رہا ہے۔ وہ 12 سال کے بچے کو نوٹس کیسے جاری کر سکتے ہیں؟‘‘
وہیں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسالدین اویسی نے بھی اس معاملے پر سوالات اٹھائے تھے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ مدھیہ پردیش کے قانون کے تحت 12 سال کے بچے کو مجرم بنایا گیا ہے۔ جووینائل جسٹس قانون کہتا ہے کہ بچے کو کسی بدنیتی یا مجرمانہ ارادے کا قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مسلمانوں سے اتنی نفرت کہ اب ہم بچوں سے وصولی کریں گے؟‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز