نئی دہلی: شاہین باغ مظاہرین اور سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کئے گئے مذاکرات کاروں کے موقف میں ہی بنیادی فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ مظاہرین شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی کے حل پر بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ مذاکرات کار سڑک خالی کرانے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں مذاکرات کار سپریم کورٹ میں جاکر کیا کہیں گے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
Published: undefined
دونوں مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن جمعرات کو لگاتار دوسرے دن مظاہرین سے بات کرنے کے لئے شاہین باغ گئے لیکن ماحول میں ہنگامہ کی وجہ سے آخر میں سادھنا رام چندرن نے مجبور ہو کر کہا ’’ہم ایسے ماحول میں کل یہاں نہیں آئیں گے اور یہاں بات ہونا ممکن نہیں ہے اس لئے کسی علیحدہ جگہ پر یہاں کی کچھ خواتین سے بات کی جا سکتی ہے ۔ آپ سب لوگ بیٹھ کر سوچ لیں اور ہمیں بتا دیں۔‘‘
Published: undefined
گفتگو کے دوران سادھنا رام چندرن نے کہا کہ ان کی ثالثی کی کوششیں جاری ہیں اور اور وہ کل دوبارہ شاہین باغ آئیں گے۔ تاہم، وہ وہاں ہو رہے شور و غل سے ناراض بھی ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہی ماحول رہا تو وہ کل یہاں نہیں آئیں گے۔ مذاکرات کاروں نے کسی دوسری جگہ ملاقات کی بات کہی جہاں صرف خواتین موجود رہیں۔
قبل ازیں، مذاکرات کار جب شاہین باغ پہنچے تو انہوں نے راستہ کھولنے کے تعلق سے کچھ بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن مظاہرین کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہوئے اور انہوں نے صاف کہا کہ حکومت یا تو موجودہ شہریت ترمیمی قانون کو واپس لے یا اس میں جن ممالک اور جن مذاہب کو باہر رکھا ہے ان کو اس میں شامل کرے ، اور این پی آر ویسے ہی ہونا چاہئے جیسے پہلے ہوا ہے اور اس میں شامل کئے متنازعہ سوالات کو نکالا جائے۔ سادھنا رام چندرن نے کہا کہ نہ تو وہ خود اور نہ ہی سنجے ہیگڑے چاہتے ہیں کہ مظاہرہ ختم کیا جائے۔ دونوں مذاکرات کاروں نے جب مظاہر کی وجہ سے ہو رہی لوگوں کی دشواریوں کا ذکر کیا تو مظاہرین نے صاف صاف کہا’’اس مظاہرہ سے ہو رہی پریشانیوں کا تو ذکر ہو رہا ہے لیکن جس قانون کی وجہ سے مظاہرین یہاں بیٹھے ہیں اور جن پریشانیوں سے دو چار ہیں اس کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔‘‘
Published: undefined
مظاہرین نے میڈیا اور حکومت کے رویہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہم سے بات کرنے تک کوئی نہیں آیا ۔‘‘ خواتین نے مذاکرات کار سے کہا کہ وہ اس لئے آئے ہیں کہ وہ یہاں مظاہرہ کر رہی ہیں اور جب وہ یہاں سے ہٹ جائیں گی پھر تو کوئی نہیں آئے گا۔ مظاہرین نے کہا کہ جے پی آندولن اور انا آندولن کے وقت ہوئی پریشانیوں کا کبھی کوئی ذکر نہیں ہوا لیکن آج ہندوستان کے لئے کوئی آندولن کیا جا رہے تو پریشانیوں کی بات ہو رہی ہے۔
Published: undefined
مظاہرین نے ایک مرتبہ پھر جامعہ کے طلباء پر ہوئے تشدد کی بات دہرائی اور نظربندی کیمپوں کا ذکر کیا ۔ مظاہرین نے نم آنکھوں سے اپنی بات رکھی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ یہاں سے ہٹنے والی نہیں ہیں جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں لیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کا استقبال کرنے اور ان کو گلے لگانے کے لئے تیار ہیں لیکن وہ یہاں آئیں تو۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف اور صرف میرے قانون کی بات نہیں چل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی جج کہ لئے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ مظاہرہ کو ہٹا دیا جائے لیکن اگر یہ مظاہرہ ختم ہو گیا تو پھر ملک میں سارے مظاہرہ ختم ہو جائیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined