شاہین باغ میں سینکڑوں خواتین دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں اور اس درمیان ایک شخص نے فائرنگ کر دی جس کے بعد افرا تفری کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق فائرنگ کرنے والے شخص کا نام کپل گوجر ہے جو کہ دہلی واقع دلو پورہ کا رہنے والا ہے۔ فائرنگ کے بعد پولس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور اسے گاڑی میں بٹھا کر تھانہ لے گئی ہے۔ فائرنگ کے بعد جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس نے میڈیا کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے ملک میں اور کسی کی نہیں چلے گی، صرف ہندوؤں کی چلے گی۔‘‘
Published: undefined
اس فائرنگ واقعہ کے بعد شاہین باغ مظاہرہ میں بیٹھی خواتین کے درمیان کافی ہلچل پیدا ہو گئی۔ انھیں کچھ ذمہ دار خواتین نے مائیک پر خاموشی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کہا اور ماحول کو پرامن بنانے کی کوشش کی۔ ’قومی آواز‘ کو ملے کچھ ویڈیوز میں مائیک سے یہ اعلان ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ سبھی بیٹھ جائیں اور افرا تفری نہ پھیلائیں۔ مائیک پر یہ بھی کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ کسی کو کچھ نہیں ہوا ہے، اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ خواتین ان اعلانات کو سن کر پرامن انداز میں ٹینٹ کے اندر بیٹھتی ہوئی نظر آئیں۔
Published: undefined
اس واقعہ کے بعد اوکھلا کے سابق رکن اسمبلی آصف محمد خان نے بڑا بیان دیا ہے۔ انھوں نے سیدھے طور پر دہلی پولس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ بھی شاہین باغ میں آج ہوا ہے اس کے لیے ذمہ دار پولس ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’شاہین باغ مظاہرہ میں موجود لوگوں نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والا شخص پولس اہلکاروں کے ساتھ ہی بیریکیڈ کے اندر آیا اور فائرنگ کے بعد جب لوگوں نے اس بدمعاش کو پکڑنے کی کوشش کی تب جا کر پولس نے اسے گرفتار کیا اور اپنی حفاظت میں لے کر اسے چلی گئی۔‘‘ آصف محمد خان نے یہ بھی کہا کہ ’’جامعہ فائرنگ کرنے والے لڑکے کو بھی پولس نے فائرنگ کے بعد گرفتار کیا اور تھانہ لے جانے کے بعد اسے خود ہی نابالغ ثابت کر دیا۔ ابھی تک اس کی فورنسک جانچ بھی نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ شاہین باغ میں جو کچھ ہوا وہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے اور پولس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس کے باہر طلبا کے احتجاجی مارچ پر مبینہ طور پر ایک نابالغ لڑکے نے فائرنگ کر دی تھی۔ اس فائرنگ میں شاداب نامی طالب علم زخمی بھی ہوا تھا۔ یہ واقعہ 30 جنوری کو پیش آیا جب طلبا اور کچھ مقامی لوگ راج گھاٹ کے لیے مارچ نکال رہے تھے۔ اس واقعہ کا جو ویڈیو سامنے آیا ہے اس میں صاف نظر آرہا ہے کہ پولس کچھ ہی دوری پر کھڑی ہے اور نابالغ لڑکا کٹّہ لہرا کر دھمکیاں دیتا ہے، لیکن پولس اسے تب گرفتار کرتی ہے جب وہ فائرنگ کر چکا ہوتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز