تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن نے بنگلور میں پانی کی قلت کے موضوع پر ایک تجزیاتی رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ میں چندرا شیکھر کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس وقت کو یاد کر رہے ہیں، جب اس جنوبی بھارتی شہر میں متعدد جھیلیں ہوا کرتی تھیں اور باغات ہوتے تھے،''یہ سب کچھ غائب ہو گیا۔ انہیں عمارتیں بنانے کے لیے استعال کر لیا گیا۔‘‘
Published: undefined
آج اس شہر کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور شیکھر جیسے کئی شہریوں کو پانی کے لیے تپتی دھوپ میں ٹینکر کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انسٹھ سالہ شیکھر ریٹائرڈ انجینیئر ہیں۔ انہوں نے بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس مرکز کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، ''بنگلور جھیلوں کے شہر سے کنکریٹ کے شہر میں بدل چکا ہے۔ اس وجہ سے تمام پانی غائب ہو گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
نقل مکانی کی وجہ سے شہر کی آبادی میں ہونا والے ہوش ربا اضافے، تعمیرات اور پانی کی ترسیل کے نظام کے انتظامی امور کے مسائل کی وجہ سے نلکے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بھی مزید نیچے چلی گئی ہے۔
Published: undefined
بنگلور اپنی ترقی کی بہت مہنگی قیمت ادا کر رہا ہے۔ بنگلور1990ء کی دہائی سے بھارت اور دنیا بھر کے ٹیکنالوجی کے شوقین افراد کے لیے پرکشش بننا شروع ہو گیا تھا۔ مائیکروسافٹ، آئی بی ایم، ڈیل اور گوگل جیسی بڑی بڑی کمپنیوں اس شہر کا رخ کیا۔
Published: undefined
اس شہر کا رقبہ تین دہائیوں کے دوران تین گنا بڑھ چکا ہے۔ اس دوران بہت سے قریبی علاقے اور دیہات اس شہر کا حصہ بن چکے ہیں۔
Published: undefined
بنگلور کی آبادی 2001ء کے بعد سے دو گنا ہو کر بارہ ملین ہو چکی ہے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ2031ء تک اس شہر میں بیس ملین سے زائد شہری آباد ہوں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز