قومی خبریں

رافیل سودے کے ہر پہلو کی انل امبانی کو پہلے سے جانکاری تھی! میڈیا پارٹ کا سنسنی خیز انکشاف

سودے میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کی معلومات فرانس کی فنانشیل کرائم برانچ، پی این ایف کی سربراہ کو بھی تھی لیکن دباؤ کے سبب معاملہ کو دبا دیا گیا، پیش ہے میڈیا پارٹ کی اس معاملہ میں دوسری رپورٹ:

رافیل، تصویر آئی اے این ایس
رافیل، تصویر آئی اے این ایس 

رافیل جہاز سودے میں بدعنوانی کی پرتیں ایک بار پھر کھلنے لگی ہیں۔ فرانس کی نیوز ویب سائٹ ’میڈیا پارٹ‘ نے اس سودے میں ہوئی بدعنوانی پر ایک انویسٹیگیٹو رپورٹ تیار کی ہے، جس کی دوسری کڑی کو آج ریلیز کیا گیا۔ اس میں میڈیا پارٹ کا کہا ہے کہ انل امبانی کے ریلائنس گروپ کو اس سودے کی پہلے سے جانکاری تھی اور انہوں نے اس میں اپنی حصہ داری حاصل کرنے کے لئے فرانس کے اس وقت کے صدر فرانسواں اولاند کی اہلیہ کی فلم کو فائننس کیا تھا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

فرانسیسی کمپنی کے ذریعہ 36 رافیل لڑاکا جہاز کے متنازعہ سودے کے تعلق سے تین حصوں پر مبنی رپورٹ کے دوسرے سلسلہ میں فرانس کے ادارے ’میڈیا پارٹ‘ نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ کیسے فرینچ پبلک پروسیکیوشن سروسز، فنانشیل کرائم برانچ کی سربراہ الیین ہولیت نے اس سودے میں ہوئی مبینہ بدعنوانی کو دبا دیا تھا۔ جبکہ ان کے ساتھیوں کی رائے ان سے مختلف تھی۔ فرانس کے موجودہ صدر امانول میکرون اور سابق صدر فرانسواں اولاند کے نام بھی اس معاملہ میں منسلک ہیں۔ ہولیت نے اپنے فیصلے کے دفاع میں کہا ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ فرانس کے مفادات اور اداروں کے کام کاج کی حفاظت کے لئے کیا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

شائع رپورٹ کے مطابق، سال 2018 کے اکتوبر ماہ کے آخر میں فرینچ پبلک پروسیکیوشن، فنانشیل کرائم برانچ، پی این ایف کی سربراہ الیین ہولیت سے ایک معروف غیر سرکاری تنظیم نے ایک لیگل نوٹس پیش کر کے ایک مشکوک اور بڑے گھوٹالہ کی طرف اشارہ کیا تھا، جس میں فرانسیسی ریاست اور فرانس کی ایک بڑی صنعتی کمپنی ڈسالٹ ایویشن کی شمولیت تھی۔

شیرپا نامی پیرس کی غیر سرکای تنظیم نے میڈیا میں شائع انکشافات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ہندوستان کو 7.8 بلین یورو کے 36 ڈسالٹ رافیل لڑاکا جہازوں کی فرانس کے ذریعے بکری میں بدعنوانی، منی لانڈرنگ، پیڈلنگ اور جانب داری کے شبہات ہیں۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

شیرپا تنظیم نے جو دستاویزات پیش کئے تھے ان کو ’سگلنالیمنٹ‘ کہا جاتا ہے اور فرانس میں یہ کسی مجرمانہ عمل کے لئے ایک سرکاری الرٹ ہوتا ہے، جس کو ان لوگوں یا اداروں کے ذریعہ پیش کیا جا سکتا ہے جو مبینہ جرم سے سیدھے طور پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ یہ ایک سیاسی طور پر انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس لئے نہیں کہ یہ دو حکومتوں کے مابین اسلحہ کا بڑا سودا ہے بلکہ اس لئے بھی کہ اس کے ممکنہ اثرات فرانسیسی صدر امانول میکرون، سابق صدر فرانسواں اولاند اور اس وقت کے وزیر دفاع اور موجودہ وزیر خارجہ جاں یس لی ڈرائن پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

جنوری 2016 میں اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانسواں اولاند اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین رافیل سودے کے لئے بین حکومتی معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدہ پر دستخط سے پہلے ریلائنس گروپ، جو دفاع اور ٹیلی مواصلات اور تفریحی شعبہ میں کام کرتا ہے، اس نے فرانسیسی صدر کی پارٹنر اور اداکارہ جولی گےیت سے ایک فیچر فلم کے لئے 1.6 میلین یورو کی فنڈنگ کا وعدی کیا۔

میڈیا پارٹ نے سال 2018 میں اس تعلق سے جب فرانسواں اولاند سے دریافت کیا تھا تو انہوں نے صاف کہا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ انل امبانی کے ریلائنس گروپ نے جولی گےیت کے ساتھ فلم بنائی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انل امبانی نے ڈسلاٹ ایویشن کے سربراہ پر ہندسوستانی شراکت دار بنانے کے لئے ہندوستانی حکومت پر دباؤ ڈالا تھا حالانکہ ڈسالٹ اور اس وقت کے فرانسیسی وزیر دفاع جاں یس لی ڈرائن نے اس بات سے انکار کیا ہے۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

اس دوران اپریل 2019 میں فرانسیسی ’لی مونڈے ‘ نے رپورٹ شائع کی تھی کہ سال 2014 سے سال 2016 کے درمیان اولاند کے وزیر خزانہ رہے امانول میکرون نے ریلائنس کی فرانسیسی اکائی کا بہت موٹا ٹیکس معاف کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ریلائنس پر 151 ملین یورو کا ٹیکس عائد ہوتا تھا جسے میکرون نے کم کر کے 7.6 ملین یورو کر دیا لیکن فرانسیسی صدر کے افسران نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے میکرون اور انل امبانی کی کسی ملاقات کی جانکاری سے انکار کیا ہے۔

اس سلسلہ میں میڈیا پارٹ کو جو دستاویزات اور لوگوں کے بیانات حاصل ہوئے ہیں اس سے صاف ہوتا ہے کہ شیرپا نے فرانس کی انسداد بدعنوانی برانچ کی سربراہ کو جو دھماکہ خیز دستاویزات سونپے تھے اس کی بنیاد پر جانچ شروع ہونی چاہئے تھی لیکن رافیل سودے کو لے کر کسی قسم کی جانچ کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

جون 2019 میں پی این ایف کے سربراہ کا عہدہ چھوڑنے سے کچھ وقت پہلے ہی الیین ہولیت نےشیرپا این جی او کے ذریعہ داخل کئے گئے دستاویزات کی بنیاد پر کوئی معاملہ درج کئے بغیر ہی اس کی جانچ بند کر دی۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس میں کوئی جرم نہیں ہوا جبکہ یہ فیصلہ ایسا ہے جو کیس کی جانچ کر رہے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے مشورہ کے خلاف تھا اور انہوں نے اس معاملہ میں رپورٹ داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد ہولیت کے فیصلے پر پیرس پبلک پراسیکیوشن کے دو ججوں نے مہر لگا دی تھی اور ہولیت کے بعد بنے پی این ایف کے سربراہ فرانسواں بوہنرت نے بھی اس کو آگے نہیں بڑھایا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

جولائی 2020 میں پیرس میچ میگزین کو دئے ایک انٹرویو میں اس موضوع پر ہولیت نے کہا تھا کہ ’’کوئی بھی اپنے دور اقتدار میں ہر چیز پر نظر نہیں رکھ سکتا اور اس کی جانچ نہیں کر سکتا ۔‘‘ انہوں نے کہا تھا ’’کسی بھی معاملہ کی جانچ شروع کرنے سے پہلے فرانس کے مفادات اور اداروں کے کام کاج کو دھیان میں رکھنا پڑتا ہے۔‘‘ یعنی فرانس کی فنانشیل کرائم برانچ، پی این ایف کی پہلی سربراہ جو سال 2014 سے سال 2019 تک اس عہدے پر رہیں، ایک حساس معاملہ کی جانچ نہیں کر پائیں کیونکہ ان کی نظر میں قومی مفادات بالاتر تھے۔ میڈیا پارٹ نے ہولیت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اب اس عہدے پر نہیں ہیں اور اس سلسلہ میں جو بھی پوچھنا ہے وہ بوہنرت سے پوچھیں۔ دوسری جانب ڈسالٹ ایویشن نے بھی میڈیا پارٹ کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

واضح رہے، اس سارے معاملہ کی شروعات سال 2012 میں ہوئی تھی جب ایک پبلک ٹینڈر کے ذریعہ ہندوستانی ایئر فورس کے لئے 126 رافیل جہازوں کی سپلائی کے لئے ڈسالٹ ایویشن کا انتخاب ہوا تھا۔ شروعاتی بات چیت کے تحت ان 126 میں سے 108 رافیل جہاز ہندوستان میں تیار کئے جانے تھے۔ اسےآفسیٹ اگریمنٹ کہا گیا اور اس سے ہندوستان کی معیشت کو معاشی فائدہ ہونے والا تھا۔ اس معاہدہ میں ڈسالٹ ’ہندوستان ایرونوٹکس لمیٹڈ’ یعنی ایچ اے ایل کے ساتھ مل کر ہندوستان میں ہی 108 رافیل جہاز بنانے والی تھی۔ ہندوستانی حکومت نے ایچ اے ایل کو ڈسالٹ کا ہندوستان میں مرکزی پارٹنر بنایا تھا۔ پورے سودے کی قیمت کا قریب آدھا یعنی لگ بھگ 4 ملین یورو ڈسالٹ ایویشن کو ہندوستانی کمپنیوں میں جہازوں کے لئے پرزے وغیرہ خریدنے میں لگنا تھا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

قریب 3 سال تک اس معاملہ میں سودے بازی ہوتی رہی اور سال 2015 میں اچانک حالات بدل گئے۔ ایک سال پہلے ہی اقتدار میں آئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپریل 2015 میں فرانس کا دورہ کیا اور سودے کی شرائط کو بدل کر انہوں نے فرانس سے 36 رافیل لڑاکا جہاز خریدنے کے سمجھوتے کا اعلان کر دیا۔ اس سمجھوتے میں ایچ اے ایل کو درکنار کر دیا گیا اور اس کی جگہ انل امبانی کی کمپنی کو ڈسالٹ ایویشن کا مرکزی شراکت دار بنا دیا گیا۔ میڈیا پارٹ کا کہنا ہے کہ انل امبانی کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور ان کی کمپنی کو ایویشن شعبہ میں کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

میڈیا پارٹ کا کہنا ہے کہ اتنا ہی نہیں انل امبانی کو اس سودے کی پہلے سے ہی جانکاری تھی اور انہیں پتہ تھا کہ نئے سودے میں ان کی کمپنی کو ڈسالٹ ایویشن کے مرکزی شراکت دار کے طور پر شامل کیا جائے گا۔ میڈیا پارٹ نے بتایا کہ وزیر اعظم مودی اور اس وقت کے فرانسیسی صدر اولاند کے ذریعہ 36 لڑاکا جہازوں کی خرید کے سودے کے اعلان سے کوئی 3 ہفتہ پہلے انل امبانی پیرس آئے تھے اور انہوں نے فرانسیسی وزیر دفاع جاں یس لی ڈرائن کے مشیروں سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد اور رافیل سودے پر دستخط ہونے سے ایک ہفتہ پہلے انل امبانی نے 28 مارچ 2015 میں ریلائنس ڈفینس نام کی ایک کمپنی قائم کی اور جب سودے کا اعلان ہوا تو ریلائنس ڈفینس کو ڈسالٹ ایویشن کا مرکزی شراکت دار بنا دیا گیا۔ یعنی رافیل سودے پر حتمی اتفاق رائے سے پہلے سے کوئی ایک سال پہلے انل امبانی کی کمپنی کو ڈسالٹ کا شراکت دار بنا دیا گیا تھا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

میڈیا پارٹ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ وزیر خارجہ اور اس وقت کے وزیر دفاع جاں یس لی ڈرائن کے انل امبانی کے ساتھ تعلقات ہیں اور ڈرائن کا کہنا ہے کسی بھی صنعت کار کے لئے ایسے تعلقات کا ہونا عام بات ہے۔ حالانکہ انہوں نے رافیل سودے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔

واضح رہے کہ مودی حکومت پر رافیل سودے میں بدعنوانی کے الزامات عائد ہو رہے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس سودے کو حتمی شکل دینے سے پہلے اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 06 Apr 2021, 10:12 PM IST