راجستھان حکومت کے سابق وزیر اور بی جے پی کے سینئر ممبر اسمبلی گھنشیام تیواری نے ریاست کی وسندھرا راجے حکومت کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہوئے کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے۔ پارٹی نے ان پر ڈسپلن شکنی کا الزام عائد کرتے ہوئے کچھ سوالوں کا جواب طلب کیا ہے۔ ان سوالوں کا جواب گھنشیام تیواری نے نہ صرف پارٹی کو دیا ہے بلکہ اسے کتابچہ کی شکل میں شائع کرانے کے بعد لوگوں میں تقسیم بھی کروا رہے ہیں۔
Published: 30 Oct 2017, 8:06 PM IST
پارٹی کے ذریعہ پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں گھنشیام تیواری نے کئی حیران کرنے والے اور سنسنی خیز انکشاف کیے ہیں۔ دراصل تیواری جے پور کے سانگانیر اسمبلی حلقہ سے سب سے زیادہ ووٹوں سے جیتے تھے، لیکن کئی بار وزیر رہے تیواری کو وسندھرا راجے نے اپنی کابینہ میں جگہ نہیں دی۔ وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سے گھنشیام تیواری کا رشتہ تلخ رہا ہے۔ اسی وجہ سے تیواری نے وسندھرا راجے کے خلاف کبھی بالواسطہ تو کبھی بلاواسطہ بولنا جاری رکھا۔ چونکہ تیواری کا قد ریاست کے بی جے پی لیڈروں میں اتنا بڑا ہے کہ ان کے خلاف بولنے کی ہمت کسی کی نہیں ہوتی، لیکن وسندھرا راجے کے قریبی بی جے پی کے ریاستی صدر اشوک پرنامی نے تیواری کی شکایت سنٹرل ڈسپلنری کمیٹی سے کی اور انھیں نوٹس جاری کر دیا گیا۔ نوٹس میں ان سے چار سوال کے جواب طلب کیے گئے۔ چار سوال یہ ہیں:
· دو سال سے لگاتار پارٹی مخالف سرگرمیوں میں شامل رہنا اور پارٹی کے خلاف بیان بازی کرنا
· پارٹی کی میٹنگوں میں شامل نہ ہونا
· حزب مخالف پارٹیوں کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنا
· پارٹی کے یکساں نئی سیاسی پارٹی کھڑی کرنے کی کوشش کرنا
ان سوالوں کے تیواری نے جواب بھیجے ہیں اور لوگوں کے درمیان ایک کتابچہ کی شکل میں تقسیم بھی کیا ہے۔ انھوں نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ وہ اس طرح کے نوٹس سے نہ تو گھبرا رہے ہیں اور نہ ہی جھکیں گے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ 2 اکتوبر 2015 کو ہوئے بی جے پی تربیتی کیمپ میں وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کے لوگوں نے ان پر جانلیوا حملہ کیا۔ انھوں نے واقعہ کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس جان لیوا حملے میں ان کے ہاتھ میں فریکچر بھی ہو گیا۔‘‘ تیواری نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان پر اس طرح کا یہ پانچواں جان لیوا حملہ تھا۔ انھوں نے لکھا کہ ’’وسندھرا حکومت نے ان کی اور ان کی فیملی کی سیکورٹی کو ہٹا لیا ہے جو قبل کی کانگریس حکومت نے انھیں دی تھی۔‘‘
تیواری نے اپنے جواب میں واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ موجودہ حکومت کے رہتے انھیں لگاتار جان کا خطرہ ہے، اس لیے وہ پارٹی کی میٹنگوں اور پروگراموں میں نہیں جا رہے ہیں۔ تیواری نے کہا کہ ان پر حملے کے قصورواروں کی شناخت ہو چکی ہے اور اس کی رپورٹ بی جے پی ریاستی صدر کے پاس ہے، لیکن رپورٹ کو دبا دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ رپورٹ دبانے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کہا گیا تھا ’’وزیر اعلیٰ کے نزدیکی ایک لیڈر نے باہر سے غنڈوں کو بلا کر انھیں لاٹھیوں سے لیس کر مجھ پر جان لیوا حملے کی سازش تیار کی۔‘‘ انھوں نے لکھا کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی ہونی تھی۔ لیکن راجستھان میں ’پارٹی کا قانون تو وزیر اعلیٰ کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے ذریعہ جاری نوٹس راجستھان کے عوام کی بے عزتی ہے۔ انھوں نے اس نوٹس کو راجستھان کے بدعنوان حکومت کی طرف سے بھیجا گیا خط کہا۔ تیواری کا کہنا ہے کہ ’’پارٹی کی میٹنگوں میں انھیں سینئرٹی کے مطابق بیٹھنے کی جگہ تک مہیا نہیں کرائی جاتی اور بے عزت کیا جاتا ہے۔‘‘
Published: 30 Oct 2017, 8:06 PM IST
تیواری نے اپنے جواب میں وسندھرا راجے پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر اعلیٰ نے دباؤ بنوا کر مجھے پارٹی کی مرکزی اور ریاستی سبھی ذمہ داریوں سے ہٹوا دیا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ امت شاہ جب پارٹی صدر بنے اس کے بعد انھیں قومی مجلس عاملہ میں شامل کرنے کا دہلی سے دعوت نامہ موصول ہوا تھا اور فون آیا تھا، لیکن وسندھرا راجے کے دباؤ میں فیصلہ بدل دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ وقت آنے پر راجستھان کی عوام انصاف کرے گی اور آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کاٹھ کی ہانڈی بار بار نہیں چڑھتی۔
نوٹس میں پوچھے گئے پارٹی مخالف سرگرمیوں اور بیانات کے جواب میں تیواری نے لکھا ہے کہ ’’میں اس الزام کو سرے سے مسترد کرتا ہوں۔ پارٹی کے اندر جو واقعی ڈسپلن شکن ہیں، انھیں پورے ملک میں ڈسپلن شکنی کی مہارانی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔‘‘ انھوں نے وسندھرا راجے کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ہر ہفتہ ڈسپلن شکنی کرتی ہیں، ان کا پورا عمل ہی تنظیم، نظریہ، کارکنان، آزاد میڈیا اور عوام کی توہین پر مشتمل ہے۔
تیواری نے اپنے جواب میں یہ بھی الزام عائد کیا کہ 2014 میں جس دن وزیر اعظم حلف لے رہے تھے، اس دن وسندھرا راجے نے راجستھان کے سبھی بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کو اپنی نوٹنکی کے لیے بیکانیر ہاؤس میں بٹھا دیا اور حلف برداری تقریب میں نہیں جانے دیا۔ تیواری کا کہنا ہے کہ وسندھرا راجے نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ راجستھان کے بی جے پی ممبران پارلیمنٹ نریندر مودی حکومت سے خوش نہیں ہیں اور ان کی حلف برداری تقریب کا بائیکاٹ کیا ہے۔ تیواری نے للت مودی واقعہ کی بھی یاد دلائی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ للت مودی کے حق میں وسندھرا راجے نے اپنے دستخط سے حلف نامہ دیا، کیا یہ ملک سے غداری نہیں ہے۔ انھوں نے بی جے پی کی مرکزی قیادت سے سوال پوچھا ہے کہ آخر کس مجبوری کے تحت پارٹی وسندھرا راجے کے خلاف کارروائی نہیں کر پا رہی ہے۔
تیواری نے اپنے جواب میں یاد دلایا کہ 2012 میں میڈیا کے سامنے ’ڈسپلن شکنی کی مہارانی‘ نے پارٹی کی پرائمری ممبرشپ سے استعفیٰ کا اعلان کیا اور حامیوں کے استعفے دلوائے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ 2008 میں بھی وسندھرا نے پارٹی کے پارلیمانی بورڈ اور پارٹی کے قومی صدر کے فیصلے کے خلاف کام کیا۔ اس وقت جن لوگوں نے ان کی حمایت میں پارٹی سے استعفیٰ دیا تھا، انہی لوگوں کو وسندھرا نے اپنی کابینہ میں جگہ دی ہے۔ تیواری نے اس وقت کے پورے معاملے کا حوالہ دیا ہے کہ کس طرح مرکزی قیادت کے حکم کے بعد بھی وسندھرا نے حزب مخالف لیڈر کا عہدہ نہیں چھوڑا تھا اور پارٹی کی خواہش کے خلاف ممبران اسمبلی کی پریڈ کرانے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ جس وسندھرا راجے نے پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی کھلی خلاف ورزی کی، مرکزی لیڈروں کو اہمیت نہیں دی، پوری پارٹی کو گروی رکھ دیا، ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی۔
تیواری نے اپنی تحریر میں اس الزام کا بھی جواب دیا ہے کہ وہ بی جے پی کے یکساں پارٹی کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تیواری نے اس سلسلے میں واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ دراصل یکساں پارٹی کھڑی کرنے کی کوشش وسندھرا راجے نے کی ہے۔ تیواری نے اس الزام سے متعلق دستاویز بھی بی جے پی کو بھیجا ہے۔ تیواری کا دعویٰ ہے کہ پارٹی مفاد اور سینئر افراد کی ہدایت پر وہ ہمیشہ قربانی کرتے آئے ہیں، لیکن کیا پارٹی ’ڈسپلن شکنی کی مہارانی‘ سے ایسی امید کر سکتی ہے۔
تیواری نے بی جے پی کی مرکزی قیادت سے بھی سوال پوچھا ہے کہ راجستھان کی عوام کو یہ جواب چاہیے کہ یہ سارا کھیل مجبوری کا ہے یا ملی بھگت کا۔ مجبوری ہے تو کیا ہے اور ملی بھگت ہے تو اس میں کون کون لوگ شامل ہیں۔ انھوں نے راجستھان بی جے پی کو چور-چور موسیرے بھائی -بہن بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان سب لوگوں کی لوٹ سے پورا راجستھان واقف ہے۔
Published: 30 Oct 2017, 8:06 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Oct 2017, 8:06 PM IST