اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کی فروخت بند کرنے کے فیصلے سے زبردست تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ یوپی حکومت کے اس فیصلے نے سیاسی، سماجی و مذہبی سرگرمیوں کو تیز کر دیا ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کے حلال ٹرسٹ نے اس عمل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ حلال ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹیو افسر (سی ای او) نیاز احمد فاروقی نے بیان جاری کر اس فیصلے کو پوری طرح سے غلط بتایا ہے۔ حلال ٹرسٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل داخل کریں گے۔
Published: undefined
حلال ٹرسٹ کے سی ای او نیاز احمد فاروقی کا کہنا ہے کہ حلال سرٹیفائیڈ ہونے سے ہندوستانی مصنوعات کو لے کر ہندوستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک بھروسہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے برآمدات میں تعاون اور کاروبار میں منافع ملتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، وزارت برائے کامرس نے ایسا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی کیا ہوا ہے۔ نیاز احمد کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جمعیۃ علمائے ہند کے حلال سرٹیفکیٹ کی دنیا بھر میں مثبت شبیہ ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ صارفین کو ان مصنوعات کا استعمال کرنے سے بچاتے ہیں، جس کا استعمال وہ مناسب نہیں سمجھتے۔
Published: undefined
ان سب کے درمیان محکمہ فوڈ میں زبردست ہلچل دیکھی جا رہی ہے۔ فوڈ سیکورٹی و میڈیسن ایڈمنسٹریشن نے حلال ٹیگ والی مصنوعات کی فروخت روکنے کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسپیشل سکریٹری انیتا سنگھ نے حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ یوپی میں اس محکمہ سے جڑے تمام افسران میں سرگرمی دیکھی جا رہی ہے اور ضلعی سطح پر اس کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔ سہارنپور کے ایک افسر نے بتایا کہ ان کے ضلع میں تقریباً 3200 میڈیکل اسٹور ہیں جہاں حلال سرٹیفکیٹ والی دوائیوں کی فروخت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ضلع میں تین ہزار سے زیادہ کاروباری ادارے ہیں۔ ان میں ریسٹورینٹ، مال، روز مرہ کے سامان رکھنے والی دکانیں بھی ہیں۔
Published: undefined
ایڈووکیٹ عمر بتاتے ہیں کہ حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات پر پابندی سے دنیا بھر میں مصنوعات کی فروخت پر اثر پڑے گا۔ خاص کر دوائیوں کی خریداری کرتے ہوئے مذہبی طور پر پریشانی محسوس ہوگی۔ حالانکہ ان کا ماننا ہے کہ عدالت میں حکومت کے اس فیصلے کو بیک فٹ پر جانا پڑ سکتا ہے۔ حلال مصنوعات کو لے کر یہ مسئلہ ایک مسافر کی ایک افسر سے بحث کے بعد زیادہ موضوع بحث بنا۔ بحث اس بات کو لے کر ہوئی تھی کہ ’نان ویج‘ سے الگ چیزوں پر بھی حلال سرٹیفکیٹ کی ضرورت کیوں ہے! اس کے بعد اتر پردیش واقع حضرت گنج کوتوالی میں ایک مقدمہ درج ہوا۔ اس میں حلال سرٹیفکیشن والے ایک پروڈکٹ پر ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ شکایت نامعلوم کمپنیوں کے خلاف درج کرائی گئی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ شکایت حلال سرٹیفکیشن دے کر سامان فروخت کرنے والی نامعلوم کمپنیوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 120بی، 153اے، 298، 384، 420، 467، 468، 471، 505 کے تحت درج کرائی گئیں جو کہ انتہائی سنگین الزام ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ اتر پردیش میں فائیو اسٹار ہوٹل تک حلال سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں جو یہ یقینی بناتا ہے کہ جو گوشت پیش کیا جا رہا ہے وہ حلال ہے۔ میکڈونلڈ ڈومنوز، زومیٹو جیسی کثیر ملکی کمپنیاں تک اس سرٹیفکیٹ کے ساتھ کام کرتی ہیں، لیکن خاص بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ سرٹیفکیٹ حکومت کے ذریعہ نہیں دیا جاتا۔ دراصل ہندوستان میں الگ الگ چیزوں کے لیے الگ الگ سرٹیفکیٹ کی سہولت ہے جو ان کا معیار یقینی بناتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ سرٹیفکیٹ کچھ پرائیویٹ ادارہ جیسے حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، حلال سرٹیفکیشن سروسز انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، جمعیۃ علمائے ہند حلال ٹرسٹ دے رہے ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ دراصل یہ ان اداروں پر لگام کسنے کی تیاری ہے۔
Published: undefined
مولانا موسیٰ کا کہنا ہے کہ حکومت کی منشا کچھ بھی ہو، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حلال سرٹیفکیشن فوڈ، کاسمیٹک اور فارماسیوٹکل شعبوں کے لیے کیا جاتا ہے اور یہ ایک طرح کی گارنٹی ہے کہ پروڈکٹ اسلامی قانون کے اصولوں کے تحت بنائے گئے ہیں اور اس کا استعمال صارفین کو یہ بتانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی بھی ممنوعہ شئے شامل نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined