کرناٹک ہائی کورٹ نے خودکشی کے ایک معاملے میں اہم فیصلہ دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کسی نے اگر کسی کو کہہ دیا کہ جاؤ پھانسی لگالو، اس کے صرف اتنا کہہ دینے کو خودکشی کے لیے اکسانے کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس ایم ناگ پرسنّا کی عدالت نے قابل اعتراض بیانات پر مشتمل خودکشی کے معاملات کی پیچیدگیوں پر سماعت کے بعد دیا ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ یہ معاملہ ایک پادری کی خودکشی سے جڑا ہوا ہے جس پر عدالت میں سماعت ہوئی۔ اس میں جس شخص کو ملزم بنایا گیا تھا اس پر الزام تھا کہ اس نے پادری کو خودکشی کے لیے اکسایا تھا۔ یہ کیس ساحلی کرناٹک کے اڈوپی میں ایک چرچ میں پادری کی موت سے متعلق ہے۔ ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے پادری کو خودکشی پر مجبور نہیں کیا تھا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ جاؤ پھانسی لگالو اور پادری نے پھانسی لگالی تھی۔ پادری اور درخواست گزار کی بیوی کے درمیان مبینہ تعلقات تھے اور اسی معاملے پر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔
Published: undefined
وکیل دفاع نے دلیل دی کہ ملزم نے یہ بات مبینہ تعلقات کا پتہ چلنے پر غصے میں کہی تھی اور پادری نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی وجہ ان کے مبینہ تعلقات کا دوسروں کو پتہ چل جانا تھا نہ کہ ملزم کے کہنے پر اس نے ایسا کیا۔ دوسرے فریق کے وکیل نے کہا کہ پادری نے اپنی جان اس لیے لی کیونکہ ملزم نے سب کو اس مبینہ تعلقات کو بتانے کی دھمکی دی تھی۔ سنگل جج کی بنچ نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کی بنیاد پر اس بات پر زور دیا کہ صرف ایسے بیانات کو خودکشی پر اکسانا نہیں سمجھا جا سکتا۔
Published: undefined
کرناٹک ہائی کورٹ نے پادری کی خودکشی کے پیچھے کئی وجوہات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ مثال کے طور پر ایک باپ اور پادری ہونے کے باوجود اس کے مبینہ ناجائز تعلقات۔ عدالت نے انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے سمجھنے کے چیلنج پر زور دیا۔ عدالت نے ملزم کے بیان کو خودکشی پر اکسانے کے طور پر درجہ بندی کرنے سے انکار کر تے مقدمے کو خارج کر دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined