قومی خبریں

سنبھل تشدد: مسجد کمیٹی چیف نے انتظامیہ پر عائد کیے سنگین الزامات، پولیس نے حراست میں لے کر کی پوچھ تاچھ

مسجد کمیٹی چیف ظفر علی نے کہا کہ ایس ڈی ایم وندنا مشرا اور پولیس سرکل افسر انوج کمار کی وجہ سے ہی ہنگامہ ہوا اور انہی کی وجہ سے اموات ہوئیں۔

<div class="paragraphs"><p>سنبھل تشدد، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

سنبھل تشدد، تصویر سوشل میڈیا

 
Tanweer Ahmad

اتر پردیش کے سنبھل واقع شاہی جامع مسجد میں اتوار کے روز ہوئے سروے کو لے کر جاری ہنگامہ کے درمیان آج شام مسجد انتظامیہ کمیٹی کے چیف ظفر علی نے پریس کانفرنس کیا۔ اس پریس کانفرنس میں انھوں نے مسجد احاطہ کے سروے کے دوران پیدا ہوئے تشدد کے لیے مقامی پولیس اور انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ مسجد کی کھدائی کی افواہ پھیلنے سے بھیڑ مشتعل ہوئی اور حالات خراب ہو گئے۔

Published: undefined

اس پریس کانفرنس کے بعد پولیس نے مسجد انتظامیہ کمیٹی چیف ظفر علی کو حراست میں لے لیا۔ حراست میں لینے کے بعد انھیں تھانہ لے جا کر پوچھ تاچھ کی گئی۔ ساتھ ہی سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی نے ظفر علی کے بیان میں لگائے گئے الزامات کو غلط بتایا۔

Published: undefined

اس سے قبل ظفر علی نے پریس کانفرنس میں سنبھل تشدد سے متعلق کہا کہ ’’مسجد کا جو دوبارہ سروے ہوا، وہ عدالت کے حکم سے نہیں بلکہ صرف ضلع مجسٹریٹ کے حکم پر ہوا تھا۔ یہ سروے غیر قانونی طریقے سے ہوا تھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس حادثہ کے قصوروار سنبھل ایس ڈی ایم وندنا مشرا اور پولیس سرکل افسر انوج کمار ہیں۔‘‘ اس سوال پر کہ ان افسران کا کیا قصور ہے، علی نے جواب دیا کہ ’’ایس ڈی ایم نے ضد کر کے وضو خانہ کا پانی نکلوایا، جبکہ ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا تھا کہ ڈنڈے سے پانی کی گہرائی ناپ لی جائے۔ لیکن ایس ڈی ایم کی ضد پر جب حوض کا پانی نکالا گیا تو باہر جمع لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہوئی کہ مسجد میں کھدائی کی جا رہی ہے۔ اسی سے وہ مشتعل ہو گئے۔‘‘

Published: undefined

ظفر علی نے الزام عائد کیا کہ ’’جب مسجد کے باہر بھیڑ جمع ہو رہی تھی تو پولیس سرکل افسر انوج کمار نے ان لوگوں کو گالیاں دیں اور لاٹھی چارج کروا دیا، جس سے لوگوں میں افرا تفری مچ گئی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں نے خود پولیس کو بھیڑ پر گولیاں چلاتے دیکھا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’ایس ڈی ایم وندنا مشرا اور پولیس سرکل افسر انوج کمار کی وجہ سے ہی جھگڑا ہوا اور انہی کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں۔‘‘ پریس کانفرنس میں ظفر علی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے گزارش کی کہ واردات میں ہلاک بے گناہ نوجوانوں کے اہل خانہ کو مناسب معاوضہ دیں۔

Published: undefined

دوسری طرف جامع مسجد کمیٹی چیف ظفر علی کے بیان پر سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر راجندر پنسیا نے پریس کانفرنس کر کہا کہ ’’انھوں نے ایک گمراہ کن بیان دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھیں سروے کے بارے میں جانکاری نہیں دی گئی تھی۔ عدالت کا حکم دوپہر 2.38 بجے (24 نومبر کو) آیا اور پھر ہم شام تقریباً 5.30 بجے مسجد پہنچے۔ ایڈووکیٹ کمشنر کے حکم کی ایک کاپی حاصل ہوئی اور انھوں نے اس پر دستخط کیے۔ ظفر صاحب نے کہا کہ انھوں نے پولیس کو گولیاں چلاتے دیکھا، تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ سروے کرانے میں مصروف تھے یا گولی باری دیکھ رہے تھے۔ وہ 10.30 بجے سے 10.45 بجے کے درمیان سروے کرا رہے تھے، جبکہ یہ سب (ہنگامہ) 10 بجے سے 11 بجے کے درمیان ہوا۔‘‘

Published: undefined

سنبھل ضلع مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ ’’اپنے تازہ بیان میں ظفر علی نے کہا ہے کہ انھوں نے پولیس کو اپنے ہتھیار استعمال کرتے دیکھا، پھر انھوں نے کہا کہ پولیس دیسی ہتھیار استعمال کر رہی تھی۔ پھر بعد میں کہا کہ انھیں نہیں پتہ کہ پولیس کون سے ہتھیار استعمال کر رہی تھی۔ سب سے گمراہ کن بات جو انھوں نے کہی وہ یہ کہ وضو کے حوض کا پانی خالی کیا گیا۔ ظفر صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہر جمعہ کو اس کا پانی خالی کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں وضو کے حوض کی صرف فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی ہونی تھی۔ وہاں کوئی پیمائش نہیں کی گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ضلع مجسٹریٹ نے سروے کی اجازت دی، جو غلط ہے، کیونکہ میں نے کبھی کسی سروے کی اجازت نہیں دی۔ ان کے بیانات متضاد ہیں۔‘‘

Published: undefined

واضح رہے کہ سنبھل کی جامع مسجد میں عدالت کے حکم پر اتوار کو کیے جا رہے سروے کی مخالفت کر رہے مظاہرین پولیس سے متصادم ہو گئے۔ اس دوران 4 اشخاص کی موت ہو گئی تھی۔ اس تشدد، گولی باری اور پتھراؤ میں ایس ڈی ایم رمیش چندر سمیت مجموعی طور پر 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں اب تک 7 مقدمات درج کر 25 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined