ہندو تنظیموں کے درجن بھر کارکنان نے سہارنپور کے سرکاری بس اسٹینڈ پر بنے پبلک ٹوائلٹ (بیت الخلاء) کو توڑ پھوڑ کر تباہ کر دیا۔ ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ مندر کی دیوار سے ملحق بیت الخلاء ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کر رہا تھا۔ اس کی شکایت میونسپل کارپوریشن میں کی گئی تھی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کارروائی نہ ہونے سے ناراض ہندو تنظیموں کے کارکنان نے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بیت الخلاء کو توڑ دیا۔
Published: undefined
عینی شاہدین کے مطابق 20 جنوری کی دوپہر تقریباً 12 بجے درجن بھر ہندو تنظیموں سے جڑے لوگ سہارنپور بس اسٹینڈ پر پہنچے۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے تھے اور لوہے کے اوزار بھی تھے۔ وہ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ انھوں نے اچانک سے بیت الخلاء کی دیواروں کو توڑنا شروع کر دیا۔ بھیڑ میں سے کسی نے انھیں نہیں روکا۔ کچھ روڈویز ملازمین نے انھیں ایسا کرنے سے منع ضرور کیا، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
Published: undefined
توڑ پھوڑ کرنے والے نوجوانوں کے گروپ کی قیادت کر رہے ’ہندو یودھا پریوار‘ کے لیڈر ویر سنگھ کمبوج نے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ کو بتایا کہ ’’دو دن قبل ہم لوگوں نے یہاں پہنچ کر افسران کو متنبہ کیا تھا کہ وہ فوری طور پر اس پیشاب خانہ کو ہٹا لیں کیونکہ یہ بالکل مندر سے سٹا ہوا ہے۔ انھوں نے ہماری نہیں سنی تو ہم نے خود ہی اسے صاف کر دیا ہے۔‘‘ کمبوج نے مزید کہا کہ ’’پیشاب خانہ سے ہمارا 100 سال قدیم مندر ناپاک ہو رہا تھا۔ ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جا رہا تھا۔ ہم خود ہی اس کو منہدم کرنے کے اہل ہیں، اس لیے اس کو گرا دیا اور ہم اسے بالکل صاف کر دیں گے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ اس بیت الخلاء کا استعمال محکمہ ٹرانسپورٹ کے ملازمین کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور یہ سہارنپور کے مین بس اسٹینڈ پر ہے۔ ہندو تنظیموں کے اچانک وہاں پہنچ کر ہنگامہ کرنے اور توڑ پھوڑ سے روڈ ویز ملازمین نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ایمپلائی لیڈر وکاس کمار نے کہا کہ ’’سبھی مذہبی مقامات پر بیت الخلاء ہوتے ہیں۔ حکومت تو بیت الخلاء بنانے کی تشہیر کرتی ہے، اب یہ بھی بتایا جائے کہ ملازمین پیشاب کرنے کہاں جائیں۔ ہندو تنظیموں کے نام پر غنڈہ گردی ہو رہی ہے۔ سرکاری ملکیت میں توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔‘‘
Published: undefined
میونسپل کمشنر گیانندر سنگھ کے مطابق وہ دونوں فریق سے بات کر رہے ہیں اور اس کا حل تلاش کر لیں گے۔ جب ان سے ہنگامہ کرنے والے نوجوانوں پر کارروائی کی بات کی گئی تو انھوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ سماجوادی پارٹی کے مقامی لیڈر فرہاد گاڈا کے مطابق مذہبی جذبات کا جہاں تک سوال ہے، کسی بھی عقیدہ کے لوگوں کے جذبات مجروح نہیں ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ ہندو تنظیم ہر ایک بات پر قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لے رہے ہیں۔ انھیں کسی بات پر اعتراض ہے تو اسے سسٹم کے سامنے رکھیں۔ اگر وہاں بات نہیں سنی جاتی تو آواز اٹھائیں۔ حکومت کو تو ان کی بات سب سے پہلے سننی چاہیے۔ اب حکومت ان کی ہی نہیں سن رہی ہے تو کسی اور کی بات کیا سنے گی۔ نظامِ قانون پوری طرح سے چوپٹ ہو چکا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined