لکھنؤ: مثال مشہور ہے دیگ سے زیادہ چمچہ گرم، سرکاری افسران اپنے وزیر اعلیٰ کو خوش کرنے کے لئے ایسے ایسے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں جس سے یوگی کی ہی ساکھ پر بٹا لگ رہا ہے۔
ریاستی راجدھانی لکھنؤ کے زندہ عجائب گھر نواب واجد علی شاہ میں پچاس سے زیادہ با حجاب خواتین کو اندر داخلے سے گھنٹوں روکے رکھا گیا جو اپنی ٹیچروں کے ساتھ ڈھائی سو کلو میٹر دور سے گھومنے آئیں تھیں۔
Published: 03 Feb 2018, 5:07 PM IST
الہ آباد سے لکھنؤ گھومنے آئیں ایک مدرسے کی تقریبا 50 طالبات کو لکھنؤ چڑیا گھر کے گیٹ پر گھنٹوں کھڑا رہنا پڑا۔ مدرس سید احسان احمد نے بتایا کہ وہ لوگ صبح ہی لکھنؤ چڑیا گھر پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ’’جب ہم کھڑکی پر ٹکٹ لینے پہنچے تو انہون نے ٹکٹ دینےسے انکار کر دیا‘‘۔ جب احسان احمد نے ٹکٹ نہ دئیے جانے کی وجہ پوچھی تو انہیں کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔
نواب واجد علی شاہ عجائب گھر کے پھاٹک پر ہی ان خواتین کو کئی گھنٹے روکے رکھا گیا اور ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ کھڑکی پر بیٹھے بابو نے صاف بتانے سے گریز کیا اور طلبات کو پھاٹک کے باہر بلا وجہ دیر تک انتظار کرایا گیا۔ کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد با حجاب خواتین کو لکھنؤ چڑیا گھر کے اندر جانے کی اجازت دی گئی لیکن آخر تک اس تعصب کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ ایک صحافی نے جب ادارے کے ڈائریکٹر سے سوال کیا تو انہوں نے اس واقعہ پر لیپا پوتی کرتے ہوئے کہا کہ کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر ایسا کیا گیا تھا۔ بہرحال انہوں نے مبینہ تکنیکی وجہ کو بتانے سے گریزکیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مدرسہ کی ان طالبات کی’خطا‘ صرف یہ تھی کہ وہ با حجاب تھیں اور ان پر عجائب گھر انتظامیہ کو کسی طرح کا شک تھا اور کافی دیر کی جد و جہد کے بعد سیاہ برقہ نشین خواتین کو ’بھگوا ‘ ذہنیت والے ملازمین نے اندر جانے کی اجازت دی۔
Published: 03 Feb 2018, 5:07 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Feb 2018, 5:07 PM IST