’ہندو ہردے سمراٹ‘ کے لقب کے ساتھ نریندر مودی نے 12 سال تک گجرات پر راج کیا اور اسی دم پر انہیں بی جے پی اور آر ایس ایس نے 2014 کے عام انتخابات میں وزیر اعطم عہدے کا امیدوار بنایا۔ لیکن کثیر جہتی ملک میں صرف ’کٹر ہندوتوا ‘ کا تجربہ من مطابق نتائج نہیں دیتا اس لئے ہندوتوا میں وکاس (ترقی) کی چاشنی گھول کر مودی کو ’وکاس پروش ‘ کے طور پر پیش کیا گیا ۔ لیکن ’وکاس پگلا جانے‘ اور نقاد کے تیکھے حملوں کے بعد بی جے پی اور سنگھ دونوں ہی نئی صورتحال پر حیران اور پریشان ہیں ۔دقت یہ ہے کہ وکاس کے موضوع پر نہ صرف بی جے پی کے سینئر رہنما انگلی اٹھا رہے ہیں بلکہ سنگھ کے اندر سے بھی تنقیدی تبصرے آ رہے ہیں خاص طور پر بے روزگاری اور کسانوں کے معاملہ پر۔
بھلے ہی لوک سبھا کے چناؤ ابھی 19-20 مہینے دور ہوں لیکن اس تجربہ گاہ میں تو اسی سال انتخاب ہونے ہیں جہاں سے کٹر ہندوتوا سے پیدا مبینہ وکاس کی سیڑھیاں چڑھ کر نریندر مودی اقتدار کی کرسی تک پہنچے ہیں۔
ایسے میں مودی دیوالی کے موقع پر رامائن کے بجائے مہابھارت کے کرداروں کا حوالہ پیش کرتے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ ’پگلائے وکاس ‘ کو قابو میں کس طرح سے کیا جائے۔
بی جے پی اور سنگھ کے بھی ہاتھ پاؤں پھولے ہیں۔ ایسے میں بی جےپی نے پھر سے اپنے اسی فارمولہ کو اختیار کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جو ان کے مطابق مؤثر ہے۔ یعنی کٹر ہندوتوا کارڈ اور ووٹوں کا پولرائزیشن ۔ ان دونوں کاموں کے لئے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے بہتر اور کون ہو سکتا تھا۔ اسی لئے سنگھ کا اشارہ ملتے ہی بی جے پی صدر امت شاہ یوگی کو ایسے علاقہ میں بھی لے جا رہے ہیں جہا ں ان کی کوئی پہچان نہیں ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے 6 مہینوں کے دوران اپنے فیصلوں کو لے کر کئی بار نتازعہ میں آ چکے ہیں۔ ان تنازعات کے باوجود بی جے پی نے یوگی آدتیہ ناتھ کو پہلے کیرالہ میں ’جن رکشا یاترا ‘ میں بھیجا اور اب گجرات اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اہم تشہیر کار (اسٹار کمپینر) بنا دیا ہے ۔ یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہماچل پردیش میں بھی بی جے پی کی طرف سے یوگی آدتیہ ناتھ ہی اہم تشہیر کار ہوں گے۔ اس سب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی جے پی ان دنوں ’مودی ماڈل ‘کے بجائے’ یوگی ماڈل ‘ کے سہارے آگے بڑھ رہی ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ اس گجرات کا چہرہ بن رہے ہیں جو وزیر اعطم نریندر مودی اور پارٹی کے صدر امت شاہ کا آبائی صوبہ ہے۔ جہاں گجرات کے ترقی کے ماڈل کو عوام کے سامنے پیش کر کے نریندر مودی وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچے ہیں۔
بی جے پی ہی نہیں اب آر ایس ایس کو بھی یہ لگ رہا ہے کہ موجودہ حالات میں مودی کا ترقی ماڈل زیادہ دن نہیں چل پائے گا ۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی جیسے بڑے فیصلوں نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ وہی بی جے پی آئی ٹی سیل کا ’ٹرول گینگ‘ بھی اب کہیں چھپ کر بیٹھا ہوا ہے۔
دراصل یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش میں پوری طرح ہندوتوا کے ایجنڈہ پر کام کر رہے ہیں اور صوبے کو بھگوا رنگ میں رنگ کے لئے بے چین نظر آ رہے ہیں اور ہندتوا کا ایجنڈا بنیادی طور پر سنگھ کا ایجنڈاہے ۔ اگر اسی وجہ سے گجرات ماڈل پر یوگی ماڈل کو توجہ دی جا رہی ہے تو پھر یہ بھی مان ہی لینا چاہئے کہ اب یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعظم نریندر مودی کے متبادل کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined