بی ایس این ایل میں بے ضابطگی کا ایک بڑا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ بے ضابطگی کم و بیش 20 ہزار کروڑ کی ہے جو کہ محکمہ ٹیلی مواصلات (ڈاٹ) کی ملکیتوں یعنی عمارتوں اور زمینوں کو بی ایس این ایل کو منتقل کرنے سے متعلق ہے۔ یہ ادارہ یوں تو انٹر گورنمنٹل یعنی بین سرکاری ہے، لیکن قانونی پیچیدگیوں کے سبب خمیازہ آخر میں ان بی ایس این ایل صارفین کو ہی بھگتنا پڑ سکتا ہے جو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے نیٹورک میں بھی اسی طرح کی سہولتیں ملیں گی جو پرائیویٹ آپریٹرس اپنے صارفین کو دے رہے ہیں۔ دراصل پورے ملک میں ڈاٹ کی ایسی تقریباً 7 ہزار ملکیتیں ہیں جن کی قیمت دو سے تین لاکھ کروڑ روپے ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاٹ اور بی ایس این ایل کے سرکردہ افسران نے ’آپسی سانٹھ گانٹھ‘ کر اس گھوٹالے کو انجام دیا ہے۔
اراضی سے متعلق قوانین کے مطابق ڈاٹ کی ملکیتوں کو بی ایس این ایل کو ٹرانسفر کرنے پر مختلف ریاستوں میں اسٹامپ ڈیوٹی دینا لازمی ہے۔ یہ اسٹامپ ڈیوٹی ڈاٹ کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ لیکن داخل خارج (میوٹیشن) کا عمل پورا نہ کرتے ہوئے ایک بھی پیسے کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ یہ کوئی لاپروائی سے ہوئی غلطی نہیں ہے بلکہ کابینہ نے 2000ء میں دیے حکم میں اور صدر جمہوریہ دفتر نے 2011 میں دی گئی ہدایات میں ایسا کرنے کو کہا تھا، پھر بھی ایسا نہیں کیا گیا۔
ظاہر ہے کہ اعلیٰ افسران بھی اس قانونی عمل کو پوری طرح جانتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ جب یہ بات کھلی تو ہماچل پردیش کے ڈی جی پی کے حکم پر ڈاٹ کے محکمہ ٹیلی مواصلات (مالیات) کے رکن انورادھا مترا اور نائب ڈی جی (پراپرٹی مینجمنٹ) سوربھ گیواری کے ساتھ بی ایس این ایل کے اعلیٰ سطحی افسران کے کردار کی جانچ فوراً شروع کر دی گئی۔
دراصل شملہ میں ڈاٹ کی ایسی ملکیت، جنھیں آثار قدیمہ کے درجہ میں رکھا گیا ہے، بھی کئی بینکوں کو دے دی گئی ہے۔ ڈاٹ کے رکن (مالیات) پر اس بات کی ذمہ داری ہے کہ سبھی مالی لین دین شفاف طریقے سے ہوں جب کہ ڈی ڈی جی (پراپرٹی مینجمنٹ) پر ڈاٹ کی زمین اور اس کی عمارتوں کی دیکھ ریکھ کی سیدھی ذمہ داری ہے۔ جن افسروں کے خلاف ہماچل پولس جانچ کر رہی ہے، ان سبھی سے ’نیشنل ہیرالڈ‘ نے رابطہ کیا، لیکن سبھی نے کوئی بھی رد عمل دینے سے منع کر دیا۔ سوربھ گیواری 2018 تک ڈی ڈی جی (پراپرٹی مینجمنٹ) رہے ہیں جب کہ انورادھا مترا 2016 سے ڈاٹ دفتر میں رکن (مالیات) ہیں۔ انورادھا دفاعی سکریٹری سنجے مترا کی بیوی ہیں۔
ذرائع کے مطابق چیف منیجنگ ڈائریکٹر (مالیات) انوپم شریواستو نے 2015 اور 2016 میں مختلف سرکل کے چیف جنرل منیجر کو تحریر کردہ تین خطوط میں ڈاٹ کی پراپرٹی کو بی ایس این ایل کے نام منتقل کرنے میں داخل خارج کرنے کے بہت دھیمے عمل پر مایوسی بھی ظاہر کی تھی۔ 2 فروری 2016 کے اپنے خط میں شریواستو نے یہاں تک لکھا تھا کہ ’’بی ایس این ایل فیلڈ یونٹس سے ملی رپورٹس کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ کئی بار گزارش اور اطلاع دینے کے باوجود 7406 میں سے صرف 1827 پراپرٹی کا اب تک میوٹیشن یعنی داخل خارج ہو پایا ہے۔ اس معاملے میں پروگریس محض 24.67 فیصد ہے۔‘‘ ابھی گزشتہ سال 4 جولائی کو چیف جنرل منیجر کو لکھے خط میں بی ایس این ایل کے جنرل منیجر ڈی کے سنگھل نے بھی کہا کہ 7576 میں سے صرف 4490 کا میوٹیشن ہوا ہے۔
ایک دلچسپ معاملہ اور سامنے آیا ہے۔ بی ایس این ایل کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں نے ڈاٹ کی پراپرٹی کی منتقلی میں 50 سے 100 فیصد ہدف حاصل کرنے کے لیے ممبئی اور آندھرا پردیش سرکل کے افسروں کی تعریف کی تھی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی میوٹیشن فیس جمع نہیں کی گئی۔
Published: undefined
کیا ہوگا اثر؟
اس گھوٹالے سے بی ایس این ایل صارفین پر بھی سیدھا اثر پڑے گا۔ پرائیویٹ آپریٹرس لگاتار اس کوشش میں ہیں کہ بی ایس این ایل سے جڑے صارفین کو اپنی طرف کھینچا جائے۔ دور دراز اور ناقابل رسائی والے علاقوں میں اب تک صرف بی ایس این ایل کی ہی پہنچ ہے۔ ڈاٹ سے ریٹائر ہو چکے افسر اے کے کوشک کو لگتا ہے کہ یہ سب پرائیویٹ آپریٹروں کی ملی بھگت سے کچھ افسروں نے کیا ہے۔ وہ اس سلسلے میں وی ایس این ایل اور ٹاٹا گروپ کے درمیان ہوئے سمجھوتے کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں ٹاٹا کو وی ایس این ایل میں 1439 کروڑ میں 25 فیصد حصہ داری مل گئی تھی۔ کوشک کہتے ہیں کہ بی ایس این ایل میں بھی یہی سب ہو رہا ہے۔ عمارتوں اور زمین سے جو پیسے بی ایس این ایل کو ملتے، اس سے سروسز کی صلاحیت بہتر کرنے میں مدد ملتی، لیکن ملکیتوں کا اس طرح استعمال نہیں کیا جا رہا ہے جس وجہ سے بی ایس این ایل برابر معاشی مشکلوں میں رہے گی۔ اس کا اثر بی ایس این ایل کی سروسز کی اہلیت پر پڑے گا۔ یہ ٹرینڈ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور اس طرح کے گھوٹالے بی ایس این ایل کو مزید کھوکھلا کر دیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز