نئی دہلی : برما میں روہنگیا مسلمانوں پر فوج نے ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگ اپنی جان بچانے کے لئے بارڈر کی طرف بھاگ رہے ہیں ، وہ بنگلہ دیش آنا چاہتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت اجازت نہیں دے رہی ۔ ہندوستان میں بھی کثیر تعداد میں روہنگیا مسلمان موجود ہیں جو اس وقت پس و پیش کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ، حکومت ہند نے انہیں واپس بھیجنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان کا روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ درست ہے ؟
حال ہی میں سینکڑوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے دہلی کے جنتر منتر پر پہنچ کر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہم عیش پرستی کے لئے ہندوستان نہیں آئے بلکہ جان بچانے کے لئے یہاں آئے ہیں اور ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کی ہمارے ملک میں حالات بہت خراب ہیں۔ لا تعداد لوگ مارے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ، یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ مظاہرہ کر رہے ایک روہنگیا کا کہنا تھا کہ وہ جب پیدا ہوا تھا تبھی سے وہاں ظلم کا دور جاری ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ دنیا میں انسانیت نہیں ہے کیا؟ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’’ برمی حکومت نہ تو ہمیں تعلیم دیتی ہے اور نہ ہی ملازمت ، ورنہ اپنا ملک کون چھوڑنا چاہتا ہے ۔ ہمارے جینے کا بھی حق کیوں چھین لیا گیا ہے؟ ‘‘
ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے مدن پور کھادر علاقہ میں روہنگیا مسلمانوں کے 74 خاندان قیام پزیر ہیں جن میں 330 افراد ہیں اور 100 بچے بھی شامل ہیں ۔ یہ سبھی ان جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جو بانس ، پلاسٹک ، کپڑا یا جو کچھ بھی سامان دستیاب ہو جائے اس سے بنائی گئی ہیں۔ کچھ اسی طرح کی کہانی کالندی کنج میں رہ رہے روہنگیا مسلمانوں کے 46خاندانوں کی ہے ۔ ان سبھی پر کبھی بھی ان کے ملک برما میں منتقل کئے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہےجبکہ روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار بھیجا جانا ان کے لئے سزائے موت کے مترادف ہے۔ وہ سبھی اقوام متحدہ کمشنر برائے پناہ گزین کی طرف سے جاری کردہ کارڈ دکھاتے ہیں اور حکومت ہند سے ان کی حالت پر ترس کھانے کا مطالبہ کر تے ہیں۔
دو بچوں کی ماں 26 سالہ سنجیدہ بیگم کا کہنا ہے ، ’’ برما واپس بھیجنے سے اچھا ہے ہمیں یہیں پر یمنا میں پھینک دیں‘‘۔سلیم اللہ جو کہ ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں ، کہتے ہیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ سلیم کا کہنا ہے کہ جب یو این انہیں پناہ گزین تسلیم کرتا ہے تو مسلسل ویریفکیشن کے بعد بھی حکومت ہند ایسا کیوں نہیں کر پا رہی۔
یو این ایچ سی آر میں ترجمان کی ملازمت کرنے والے صابر کا کہنا ہے کہ ، ’’اگر ہندوستان روہنگیا مسلمانوں کو یہاں نہیں رکھنا چاہتا تو پھر کسی ایسے ملک بھیج دیا جائے جہاں ان کی جان کی حفاظت ہو سکے‘‘۔
حکومت ہند روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے کئی طرح کے خدشات ظاہر کر رہی ہے۔ حکومت کے مطابق پناہ گزین نہ صرف ہندوستان شہریوں کے حقوق پر قبضہ کر رہے ہیں بلکہ سلامتی اور آبادیاتی توازن کے لئے بھی خطر ہ بن سکتے ہیں ۔
معاملہ اب سپریم کے زیر غور ہے، عدالت کے فیصلے کے بعد ہی اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ روہنگیا ہندوستان میں رہ سکتے ہیں یا انہیں یہاں سے کہیں اور جانا ہوگا۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کے فیصلہ پر عبوری روک لگانے سے انکار کر دیا ہے۔
یوں تو ہندوستان پناہگزینوں کے لئے اپنے دروازے کھولتا رہا ہے اور یہاں تبت ، بنگلہ دیش ، افغانستان اور سری لنکا کے پناہ گزین وقت وقت پر ہندوستان میں پناہ حاصل کرتے رہے ہیں یہ بات اور ہے کہ وہ سبھی غیر مسلم پناہ گزین ہیں ۔ مودی حکومت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی پناہ گزینوں کو کئی سہولیات فراہم کر رہی ہے لیکن جب روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے تو حکومت کا دل نہ جانے کیوں تنگ ہو جاتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز