جموں و کشمیر کے کٹھوعہ اور اتر پردیش کے اُناؤ عصمت دری کے تعلق سے بی جے پی لیڈروں و کارکنان کے ذریعہ ملزمین کے حق میں آواز بلند کرنے سے لوگوں کا اُن پر بھروسہ پوری طرح ختم ہو گیا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے بی جے پی کے خلاف احتجاج و مظاہروں کی خبریں تو آ ہی رہی ہیں لیکن الٰہ آباد کے شیو کٹی کالونی کے باشندوں نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو خبروں میں چھایا ہوا ہے۔ اس کالونی کے لوگوں نے اپنے گھروں کے باہر پوسٹر لگایا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’اس محلے میں بی جے پی لیڈروں اور کارکنان کا آنا منع ہے کیونکہ یہاں عورتیں اور بچیاں رہتی ہیں۔‘‘
Published: 15 Apr 2018, 2:24 PM IST
گھروں کے باہر چسپاں اس پوسٹر کی ایک تصویر خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے ٹوئٹ کیا ہے جس میں ہندی زبان میں واضح طور پر بی جے پی لیڈروں و کارکنان کے اس کالونی میں داخلے پر پابندی سے متعلق تحریر موجود ہے۔اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس طرح کے پوسٹر اس لیے لگائے ہیں کیونکہ حال کے دنوں میں بی جے پی کے کئی لیڈروں اور کارکنان کے اوپر خواتین کے خلاف تشدد اور عصمت دری کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔ شیوکٹی کالونی کے باشندوں کے ذریعہ اس طرح کے پوسٹر لگائے جانے کو اتر پردیش بی جے پی ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کے اوپر لگے عصمت دری الزامات سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ اُناؤ عصمت دری معاملے میں سی بی آئی نے جمعہ کی رات بی جے پی ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کو حراست میں لیا تھا اور 16 گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد سینگر کو عدالت نے 7 دنوں کی سی بی آئی حراست میں بھیج دیا ہے۔
بہر حال، کٹھوعہ اور اُناؤ معاملے پر لوگوں کا احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں بھی احتجاج نے شدت اختیار کر لی ہے شہر کے نئے اور قدیمی علاقوں میں کینڈل مارچ اور ہاتھوں میں پلے کارڈ بلند کر کے مرد و زن نیز بچے و بچیاں ان واقعات کے خلاف جلوس میں شامل ہیں۔ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے بھی کٹھوعہ عصمت دری اور قتل واقعہ کی متاثرہ کو انصاف دلانے کے لیے کینڈل مارچ نکالا۔
Published: 15 Apr 2018, 2:24 PM IST
دوسری طرف بی جے پی اور آر ایس ایس ذہنیت والے افراد ان واقعات کو ہلکا کر کے پیش کرنے کی کوششیں لگاتار کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر فرضی اور جعلی ناموں سے اکاؤنٹ بھی کھول لیا ہے اور اس کے ذریعہ ایک ایسی مہم چھیڑ رکھی ہے جس میں ملزموں کے حق میں آواز اٹھائی جا رہی ہے۔
Published: 15 Apr 2018, 2:24 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 Apr 2018, 2:24 PM IST