ایشلِن میتھیو کی آنکھوں دیکھی
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
کیا تم مسلمان ہو؟ یہ کیسا نام ہے؟ ہندو سینا کے کارکن راجن نے موج پور میٹرو اسٹیشن کے قریب مجھ سے یہ سوال پوچھا۔ موج پور شمال مشرقی دہلی کا علاقہ ہے۔ جعفر آباد، موج پور، نور الٰہی، گھونڈا، بھجن پورہ اور چاند باغ جیسے علاقوں میں اتوار سے تشدد ہو رہا ہے۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
جب میں موج پور کے نور الٰہی علاقے کی طرف جارہی تھی تو ماتھے پر بھگوا (زعفرانی) تلک لگائے اور ہاتھ میں لاٹھی تھامے ایک نوجوان نے مجھ سے ایک سوال پوچھا۔ سوال سے میں حیران و ششدر رہ گئی۔ اس سے قبل کہ میں جواب دیتی وہاں سے گزرنے والے ایک شخص نے کہا، ’’وہ ہندوستانی ہے۔‘‘ ایسا محسوس ہوا کہ اس جواب کے بعد راجن چونک گیا اور اس کی آواز میں بھی نرمی آ گئی۔ پھر بھی وہ میرا مذہب پوچھنے لگا۔ آخرکار مجھے یہ کہنا پڑا کہ میں عیسائی ہوں۔ اس کے بعد وہ تھوڑا کھل کر بات کرنے لگا۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب مجھ سے میرا مذہب پوچھا گیا اور اس کے بعد مجھے جانے دیا گیا۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
راجن نے کہا، ’’اب ہندو جاگ گئے ہیں۔ آپ خبروں میں ہمارا موقف کبھی نہیں دکھاتے۔ ہم چاروں طرف سے پاکستانیوں سے گھرے ہوئے ہیں، تو ہم محفوظ کس طرح رہ سکتے ہیں؟ اگر مسلمان 2 مہینوں تک دھرنے پر بیٹھ سکتے ہیں تو پھر ہم سی اے اے کی حمایت میں کیوں نہیں نکل سکتے۔ آپ مجھے اپنا نمبر دیں تاکہ میں اپنی طرف کے مظاہرے کے بارے میں معلومات دے سکوں۔‘‘ اس کے بعد راجن آگے چلا گیا۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
جعفرآباد سے چاند باغ تک جانے والے 5 کلو میٹر کے راستے کے دونوں اطراف زبردست تشدد ہوا۔ درجنوں دکانوں میں توڑ پھوڑ اور آگزنی کی گئی۔ ان میں بیشتر دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔ پولیس نے علاقے کو محاصرے میں لے رکھا ہے اور یہاں ہندو اور مسلم علاقوں کا حال واضح طور پر مختلف نظر آتا ہے۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
سیلم پور سے ذرا آگے جعفر آباد کے بعد مسلم خواتین پچھلے 45 دنوں سے ایک عارضی خیمے میں دھرنا دے رہی ہیں۔ اتوار کے روز بھیم آرمی کی کال پر مظاہرین نے بھارت بند کی حمایت میں ایک طرف کی سڑک بند کردی۔ اس کے بعد بی جے پی لیڈر کپل مشرا اپنے حامیوں کے ساتھ موج پور پہنچ گئے اور انہوں نے دہلی پولیس افسران کے سامنے راستہ کھولنے کے حوالہ سے دھمکی دی، اس کے بعد حالات اور خراب ہوگئے۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
تشدد کے دوران متعدد مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی، پٹرول بم پھینکے گئے۔ پیر کے روز جعفرآباد میں دھرنے پر بیٹھی خواتین انتہائی پریشان نظر آئیں۔ پیر کے روز ہونے والے تشدد میں کم از کم 5 افراد ہلاک ہوگئے، جن میں دہلی پولیس کا ایک کانسٹیبل بھی شامل ہے۔ دراصل، یہاں سے کچھ آگے خواتین نے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے دھرنا دینا شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہاں لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ایسی صورتحال میں مردوں نے نگہبانی کی تاکہ کوئی شرارتی عنصر گڑبڑی پیدا نہ کر دے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں ایک تلک دھاری نوجوان وہاں نمودار ہوا۔ لوگوں نے اسے گھیر لیا اور فوراً اسے وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ کسی نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
موقع پر موجود عمران نے بتایا، ’’ہم لوگوں کو مسلسل بتا رہے ہیں کہ فساد بھڑکانے والے ہندوستانی نہیں ہو سکتے۔ وہ غنڈے ہیں۔ ہمیں ہندو بھائیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو درد ہمیں بھی ہوتا ہے۔ جب ہجوم حملہ کرتا ہے تو وہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو برباد کر دیتا ہے۔‘‘
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
لیکن موج پور علاقے میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہ بنیادی طور پر ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔ دیر رات گئے تک ان علاقوں میں لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں، ڈنڈے اور لوہے کی راڈ وغیرہ لے کر گھومتے نظر آئے۔ جے شری رام کے نعروں کے درمیان متعدد دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ علاوہ ازیں، یہ لوگ ’دیش کے غداروں، کو گولی مارو .....‘ نعرے بھی گونجتے رہے۔ علاقے میں رہنے والے لوگوں کو بخوبی یہ اندازہ تھا کہ ہجوم کیا کرنے جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا اور پولیس بھی وہاں موجود تھی لیکن آنکھوں کے سامنے ہونے والے تشدد کو صرف دیکھ رہی تھی۔ اس علاقے کے عمائدین نے مشورہ دیا کہ آگے نہ جائیں کیونکہ وہاں پتھراؤ اور آگزنی ہو رہی تھی۔ انہوں نے مجھے یہ بھی مشورہ دیا کہ فون باہر مت نکالنا کیونکہ کوئی بھی ہاتھ سے چھین کر بھاگ جائے گا۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
اس پورے علاقے میں دفعہ 144 نافذ ہے لیکن موج پور میٹرو اسٹیشن کے قریب واقع شنی مندر کے پاس تقریباً 400 لوگوں کا ہجوم تھا۔ بھیڑ وندے ماترم کے نعرے لگا رہی تھی۔ شنی مندر کے نزدیک بیٹھی جیوتی نے کہا، ’’دونوں طرف سے پتھراؤ کیا گیا۔ ہمارے کئی بیٹوں کو چوٹ لگی ہے۔ جو ہمارا ہے اسے حاصل کرنے کے لئے بھلا ہم کیوں نہ باہر نکلیں؟ ہم چاروں طرف سے مسلمانوں سے گھرے ہوئے ہیں، انہیں کیا حق ہے کہ وہ ہمارا راستہ بند کر دیں؟ وہ ہمیں حکم نہیں دے سکتے۔‘‘
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
تھوڑا سا آگے جانے پر وجے پارک میں خاموشی طاری ہے کیونکہ یہ مخلوط آبادی ہے۔ وہیں مسلم اکثریتی علاقہ نور الہٰی بھی موجود ہے۔ دونوں ہی علاقے کے لوگ چوکنا نظر آئے۔ ہندو اکثریتی علاقوں میں جہاں لوگ سڑکوں پر لاٹھی، ڈنڈے، لوہے کی راڈ وغیرہ کو لے کر سڑکوں پر گھومتے نظر آئے، وہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں کچھ لوگ لاٹھیاں وغیرہ لئے اپنے گھروں کے سامنے جمع نظر آئے۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے دانش نے کہا، ’’پولیس غنڈوں کو پتھربازی کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ دونوں علاقوں کا فرق آپ خود دیکھ لیں۔ پولیس ہم سے گھروں میں بند رہنے کے لئے کہہ رہی ہے لیکن وہاں ہجوم ان کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ دفعہ 144 نافذ ہے۔‘‘ اسی علاقے کے حسین نے بتایا، ’’ہندو بھیڑ لوگوں کی پتلون اتروا کر چیک کر رہی ہے کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان! میں نے سنا ضرور ہے کہ دو ایک لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے لیکن اس کی کوئی مصدقہ خبر نہیں ہے اور یہ سب پولیس کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔‘‘
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
اسی علاقے کے فہد نے بتایا، ’’ایک غنڈہ ’پریا گارمنٹس اسٹور‘ کی چھت پر چڑھ گیا اور اس نے ہم پر فائر کیا۔ اس میں کم از کم 5 افراد زخمی ہوئے۔ کیا دہلی پولیس ہماری مدد کرے گی؟ ہم آرڈر مان لیتے ہیں لیکن وہ لوگ پولیس کی بات نہیں سنتے۔ کب تک ہم ہندو سینا کے غنڈوں کی دہشت کا سامنا کریں گے! وہ ہماری گلیوں میں گھوم رہے ہیں، ہم پر حملہ کر رہے ہیں، ہم تو صرف خواتین کی حفاظت کے لئے کھڑے ہیں۔ یہاں لوگوں نے متعدد سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیئے ہیں تاکہ ان کی حرکتیں ریکارڈ نہ ہو جائیں۔‘‘ فہد نے زمین پر خون کے داغ دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہاں ایک شخص کی ران میں گولی لگی تھی۔ کچھ لوگوں کو بازو میں اور کچھ کو پیٹ میں گولی لگی ہے۔ انہیں اسپتال پہنچایا گیا ہے۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
سب سے زیادہ تشدد بھجن پورہ علاقے میں ہوا ہے۔ یہاں جگہ جگہ موٹرسائیکلیں، ٹرک و بسیں وغیرہ جلی ہوئی حالت میں پڑی ہوئی ہیں۔ دیر رات تک کئی علاقوں سے دھواں اٹھتا رہا۔ فائر بریگیڈ کی کچھ گاڑیاں بھی آگ بجھانے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
چاند باغ اور کھجوری علاقوں میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے، انہوں نے آگے جانے کا مشورہ دیا۔ یہ دونوں علاقے مسلم اکثریتی ہیں۔ اپنے آپ کو ہندو کہنے والے ایک شخص نے کہا، ’’اس طرف کیوں جا رہی ہو؟ بھجن پورہ تھانے چلی جاؤ اور رات بھر وہیں قیام کرنا۔ دہلی کی طرف مت جانا کیونکہ اس علاقے سے نکلنے کے بعد تم محفوظ نہیں رہوگی۔‘‘
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
چاند باغ کی طرف بڑھنے پر تشدد کے نشانات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ متعدد مقامات پر آگزنی کی گئی ہے اور لوگ خوفزدہ نظر آ رہے ہیں۔ ماحول میں زبردست تناؤ ہے۔ ہر ایک آنے جانے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو میڈیا پر اعتماد نہیں ہے، ان کا خیال ہے کہ صحافی غیرجانبدار نہیں ہیں۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
کھجوری میں خود کو شاہین باغ کہنے والی ایک خاتون نے کہا، ’’میڈیا ان کی طرف ہے۔ سپریم کورٹ ان کی طرف ہے۔ دہلی پولیس ان کی طرف ہے۔ ہم تشدد کی حمایت نہیں کرتے، چاہے کسی کے بھی خلاف ہو، لیکن ہمارے ساتھ کون کھڑا ہے؟‘‘ وہاں موجود دیگر خواتین نے بھی کہا کہ ’’ہم سب شاہین باغ ہیں۔ ہمارا کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔ پلیز صحیح صحیح خبر لکھنا کہ تم نے کیا دیکھا! ہم آج رات گھروں کو واپس جا رہے ہیں کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ مزید تشدد ہوگا۔ ہمیں جدوجہد کے لئے زندہ رہنا ہوگا، اگر ہم زندہ نہیں رہیں گے تو کون احتجاج کرے گا!‘‘
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 Feb 2020, 6:30 PM IST