دلت حقوق کارکن اور وکیل رجت کلسن کے مطابق ہریانہ کے 90 فیصد دیہاتوں میں دلتوں اور سورنوں یعنی اونچی ذاتوں کے شمشان گھاٹ الگ الگ ہیں۔
Published: undefined
نیشنل الائنس فار دلت ہیومن رائٹس کے کنوینر رجت کلسن نے ایک بیان میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق ملک میں ذات پات کی بنیاد پر اچھوت یعنی چھواچھوت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اسے جرم قرار دیا گیا ہے، اس کے باوجود آج بھی ہریانہ کے 90 فیصد گاووں میں جب کسی گرامین کی موت ہوتی ہے تو اس کی ذات طے کرتی ہے کہ اس شخص کو آگ کس جگہ پر نصیب ہوگی کیونکہ 90 فیصد گاووں میں شمشان گھاٹ ذات کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔
Published: undefined
مسٹر کلسن نے کہا کہ انہوں نے فیس بک پر ایک سروے کیا تھا جس میں ریاست بھر کے لوگوں نے کمینٹ کرکے بتایا کہ ان کے گاوں میں بھی ذات کی بنیاد پر شمشان گھاٹ کی درجہ بندی کی گئی ہے اور آج بھی دیہات میں دلتوں کے لیے الگ شمشان گھاٹ ہے۔ کئی صارفین نے بتایا کہ کئی گاؤں میں دلتوں کے لیے شمشان گھاٹ ہی نہیں ہے اور کئی صارفین نے یہ بھی بتایا کہ دلت برادری کے کسی شخص کی لاش کو گاؤں کی اہم سڑکوں سے نہیں لے جانے دیاجاتا۔
Published: undefined
انہوں نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت بھی گرام پنچایتوں کو ذات پات کی بنیاد پر بنے ہوئے شمشان گھاٹوں کی تعمیر کے لیے گرانٹ جاری کر رہی ہے، جو کہ بالکل غیر قانونی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula