گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچوں کی موت کے معاملے نے جس طرح طول پکڑا اس کی وجہ آکسیجن کی کمی بنی۔ خبر لکھنے والوں سے لے کر پڑھنے والوں اور لکھنؤ اور دہلی میں بیٹھ کر تعزیت کا اظہار کرنے والوں کو آکسیجن کی کمی کے معاملے میں کئی طرح کی لاپرواہی دکھائی دی جس پر سرکار کو گھیرا جا سکتا تھا۔ گورکھپور اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں رہنے والے سینکڑوں ایسے خاندان ہیں جن کے بچے کبھی انسیفیلائٹس اور کبھی کسی نامعلوم (رسمی طور پر اے ای ایس یعنی اکیوٹ اسیفیلائٹس سنڈروم )بیماری کا شکار ہوتے آئے ہیں ، اپنے بچوں کو کھونے کا غم برسوں بعد بھی نہیں بھول پائے ہیں۔
دس اگست کو بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچوں کی اموات کے معاملے میں اب تک اتنی وجوہات اور آراء منظر عام پر آ چکی ہیں کہ اصل وجہ کا پتہ لگانے کے لئے شائد الگ سے جانچ کی ضرورت پڑے گی۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی حکومت سے کہا کہ ایک ساتھ 32 بچوں کی موت کی اصل وجہ بتائی جائے۔ شروع میں آکسیجن کی کمی کو اس کی اہم وجہ بتایا گیا، لیکن اب جبکہ ایسی کئی تھیوریز (نظریات)سامنے آ چکی ہیں جن میں بچوں کی اموات کے لئےانسیفیلائٹس کو ہی وجہ نہیں مانا گیا۔ چیف سیکریٹری کی جانچ رپورٹ میں تو آکسیجن کا ذکر ہی نہیں ہے۔ ایسی تمام قواعد اور اٹھا پٹک کے بیچ اصل مسائل پر ابھی تک خاموشی طاری ہے۔
گورکھپور اور اس کے آس پاس کے علاقے ہی گزشتہ چار دہائیوں سے انسیفیلائٹس کی زد میں کیوں بنے ہوئے ہیں؟ بیماری کی وجوہات کی تحقیق کئے بغیر روک تھام اور انسداد کی حکمت عملی بھلا کیسی بنائی جا سکتی ہے؟ جاپانی انسیفیلائٹس (جے ای ) کے وائرس کی معائنہ کے دوران شناخت کی جا سکتی ہے، اس کے ٹیکہ کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے لیکن اے ای ایس (ایکیوٹ انسیفیلائٹس سنڈروم )کا کیا؟ تین درجن سے زائد ایسے جراثیم ہیں جن سے پھیلنے والی بیماریوں کو اے ای ایس کےزمرے میں رکھا جاتا ہے اور جن کی علامات جاپانی انسیفیلائٹس سے بہت حد تک ملتی جلتی ہیں۔
یو پی میں جے ای کے ابتدائی معاملات پہلی بار 1977 میں منظر عام پر آئے۔ گورکھپور کے پپرائچ بلاک سے شروع ہو کر انسیفیلائٹس ملحقہ علاقوں میں پھیلتا چلا گیا۔ 1978 میں بیماری کے وائرس کی شناخت کر لی گئی۔ اس طرح قریب 36 اضلاع انسیفیلائٹس سے متاثر ہیں لیکن گورکھپور، کشی نگر، دیوریا اور مہاراج گنج شدید طور پر متاثر ہیں۔ بارش کے ساتھ ہی ہر سال بیماری کا قہر ان علاقوں پر ٹوٹتا ہے۔ سینکڑوں اموات اور ہزاروں بچوں کو مفلوج کر دینے والی اس وبا کے حوالے سے انتظامات کا ہونا ابھی باقی ہے۔
Published: 30 Aug 2017, 6:46 PM IST
بی آر ڈی میڈیکل کالج کے گزشتہ ایک دہائی کے دستاویزات حالانکہ جے ای کے معاملات میں کمی کی تصدیق کرتے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق جے ای کے سب سے زیادہ معاملات 2009 میں سامنے آئے۔ میڈیکل کالج میں داخل شدہ 2663 بچوں میں سے 525 کی اموات ہوئیں اور اس سال ابھی تک 598 میں سے 157 کی اموات ہو چکی ہیں۔
پانچ دن سے زیادہ بخار، جھٹکے آنا اور دماغ میں سوجن کے ساتھ دماغی پریشانی سر سری طور پر ایسی علامات ہیں جن میں جانچ کر کے طے کیا جانا ہوتا ہے کہ کہیں یہ انسیفیلائٹس تو نہیں۔ حکومت اور میڈیکل کالج کے ماہرین دونوں ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جے ای کے ٹیکے لگانے کی مہم کے بعد سے جے ای کے معاملات کافی کم ہوئے ہیں۔
Published: 30 Aug 2017, 6:46 PM IST
سال 2009 میں ایک مریض کے معائنہ کے دوران اینٹرووائرس پایا گیا تھا۔ 2012 میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی (این آئی وی) نے میڈیکل کالج میں آئے بچوں کی ریڑھ کے لئے فلوڈ کے سیمپلوں کی جانچ میں بڑے پیمانے پر اینٹرو وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی۔ اینٹرووائرس کھانے پینے کی چیزوں میں انفیکشن کی وجہ سے جسم میں پہنچتا ہے خاص طور سے پانی کے ذریعہ، مطلب صاف ہے کہ اس طرح کے انفیکشن کی اصل وجہ گندگی ہے۔
Published: 30 Aug 2017, 6:46 PM IST
اس رپورٹ کے آنے کے بعد ماہرین نے پینے کے آلودہ پانی پر وک لگانے کا مشورہ دیا تو افسران نے ڈیپ بور کے منصوبے بنائے اور اس کے پہلے کہ اس کا انتظام ہو پاتا گاؤں میں استعمال کئے جانے والے ہینڈ پمپوں کو اکھڑوانا شروع کر دیا گیا۔ کم گہرائی والے ان ہینڈپمپوں کے آس پاس گندگی، ’سوک پِٹ ‘اور بارش کے پانی کو اینٹرووائرس کے پھیلنے کی وجہ مانا گیا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کو پانی چاہئے تھا تو وہ ہنڈپمپ پھر سے نصب ہو ئے۔
اب ذرا بیماری سے نمٹنے کی سرکاری منشا پر غور کریں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں جے ای کے ٹیکے ملک میں بنانے کی سمت میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے۔ 2013 میں ہندوستان بایو ٹیک نے جے ای کا ایک ٹیکہ بازار میں اتارا ضرور لیکن اس کے دام برآمد کئے جانے والے ٹیکے سے تقریباً دس گنا زیادہ ہیں۔ 1247 روپے کا ’ جین ویک‘ خریدنے اور بچوں کو لگوانے کے تعلق سے نہ تو متعدد لوگوں کو پتہ ہے اور نہ ہی ان میں اتنی قوت کے اسے خرید سکیں۔ بی ای ایل کی ویکسین بھی 750 روپے کی ہے جس کے دو ڈوز لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دراصل چین سے برآمد ہو کر بازار میں پہنچتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی جانب سے لگایا جانے والا ٹیکہ ایس اے 14-14-2 اب بھی چین سے ہی منگایا جاتا ہے۔ مرکز کی نئی حکومت نے دو سال زور شور سے ٹیکے لگوا کر جے ای سے نمٹنے کا اعلان کیا گیا۔ اتر پردیش میں ایک بار میں جے ای کے 93 لاکھ ٹیکے لگانے کے اعداد و شمار آگے کر کے رہنما اور افسران اتراتے گھوم رہے ہیں ، لیکن مسئلہ محض جے ای کا کہاں رہ گیا؟ بیمار بچوں کی اموات پر میڈیکل کالج کے اعداد شمار بھی تو جے ای کے معاملات میں کمی کی تصدیق کرتے ہیں۔ این آئی وی نے پانچ سال قبل جن اینٹرو وائرس کی رپورٹ دی تھی ا ن کے لئے تو یہ ٹیکہ مؤثر ہی نہیں ہے۔
Published: 30 Aug 2017, 6:46 PM IST
گزشتہ برسوں میں پی ایچ سی سی ایچ سی پر انسیفیلائٹس کے علاج کے انتظام کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں ۔ گورکھپور، مہاراج گنج، دیوریا اور کشی نگر میں 66 انسیفیلائٹس ٹریٹمنٹ سنٹر (ای ٹی سی) کے ساتھ ہی گورکھپور اور بستی منڈل میں 9 پی آئی سی یو (پیڈیاٹرک انٹینسیو کیئر یونٹ) کا قیام ہوا، جن میں وینٹی لیٹر کی سہولت کے ساتھ دس بستروں کا انتظام کیا گیا۔ مگر ان مقامات پر بنیادی سہولیات مہیا کرانے کے رہنماؤں کے بیانات کی حقیقت یہ ہے کہ علاج کے لئے سی ایچ سی پی اور ایچ سی میں ہی نہیں بلکہ ضلع اسپتال پہنچنے والے مریضوں کو بھی بغیر تاخیر بی آر ڈی میڈیکل کالج منتقل کرنے کا پرانا چلن مسلسل جاری ہے۔ اور اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک امراض اطفال کے ماہرین کی کمی ہے۔ 66 ای ٹی سی میں سے کل پانچ ایسے ہیں جہاں ایم ڈی (پیڈیا ٹرکس) کی تعیناتی ہے۔ دیگر مقامات پر ایم بی بی ایس یا آیوروید کے ڈاکٹروں کو ہی تربیت کے کر یہ ذمہ داری سونپ دی گئ ہے۔
دیہی صحت اسٹیٹکس 2016 کے مطابق یو پی کی سی ایچ سی پر 84 فیصد اسپیشلسٹ کم ہیں۔ پی ایچ سی کا حال بھی کچھ الگ نہیں ہے۔ میڈیکل کالج میں 100 بیڈ کے انسیفیلائٹس وارڈ میں 62 بستروں پر ایک وینٹی لیٹر ہے۔ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے ڈاکٹروں اور اسٹاف کو چار مہینے تک تنخواہ نہ مل پانے کا مسئلہ الگ ہے۔
اے ای ایس کے لئے ذمہ دار جراثیم کی پختہ شناخت کرنے کے لئے بہتر جانچ کی سہولت درکار ہے۔ بی آر ڈی میڈیکل کالج میں ریجنل وائرولوجی ریسرچ سنٹر کے قیام کی منظوری 5 سال قبل دی گئی تھی لیکن اس کے لئے 85 کروڑ وپے دینے کا اعلان مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا نے 13 اگست کو اس قت کیا جب 10 اگست کے حادثے کے بعد وہ گورکھپور گئے۔ پینے کے صاف پانی اور گاؤں میں صفائی کے منصوبوں پر بھی گزشتہ دہائیوں میں کچھ کام ہوا ہوتا تو شاید ایسے سنگین حادثات کی نوبت نہ ہوتی۔
Published: 30 Aug 2017, 6:46 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Aug 2017, 6:46 PM IST
تصویر: پریس ریلیز