پاکستانی دہشت گرد گروپ جیش محمد کے دہشت گرد گزشتہ کئی مہینے سے وادی میں آر ڈی ایکس جمع کر رہے تھے۔ آر ڈی ایکس کی چھوٹی چھوٹی مقدار کشمیر میں لائے جانے کا مقصد یہ تھا کہ جانچ کے دوران پکڑا نہ جا سکے۔ اسے لانے کے لیے دہشت گرد انگیٹھی میں استعمال ہونے والے کوئلے کا استعمال کرتے تھے اور آر ڈی ایکس کو اسی میں چھپا کر لایا جاتا تھا۔
ہندی روزنامہ ’امر اجالا‘ میں شائع ایک خبر کے مطابق پلوامہ حملے کی جانچ میں مصروف ایجنسیوں کو شروعاتی تفتیش میں جو جانکاریاں ہاتھ لگی ہیں اس سے سامنے آیا ہے کہ آر ڈی ایکس کو انگیٹھی کے کوئلے میں چھپا کر لایا جاتا تھا۔ ایجنسیوں کے ذرائع کے مطابق آر ڈی ایکس کو کوئلے میں لپیٹ کر رکھا جاتا تھا اور اس میں اوپر سے راکھ ملا دی جاتی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان سے دراندازی کر کے آئے دہشت گرد جب آر ڈی ایکس لے کر جاتے تو مقامی پولس کو جانچ میں آر ڈی ایکس کی ہوا تک نہیں لگتی۔
فی الحال یہ صاف نہیں ہو سکا ہے کہ پلوامہ حملے میں کتنا آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا۔ ویسے شروعاتی جانچ میں سامنے آیا ہے کہ اس حملے میں آر ڈی ایکس کا استعمال تو یقینی طور پر ہوا ہے لیکن اس کی مقدار بہت زیادہ نہیں تھی۔ ایجنسیوں کو لگتا ہے کہ حملے کے لیے استعمال دھماکہ خیز مادوں میں امونیم نائٹریٹ اور دوسرے کیمیکل زیادہ مقدار میں رہے ہوں گے۔ ’امر اجالا‘ کے مطابق جانچ سے جڑے ذرائع بتاتے ہیں کہ اگر 100 کلو یا اس سے زیادہ آر ڈی ایکس ہوتا تو صرف ایک بس نہیں بلکہ 100 میٹر کے دائرے میں موجود درجنوں گاڑیاں اڑ جاتیں۔ ایسے حالات میں جان و مال کا زبردست نقصان ہو سکتا تھا۔
Published: 19 Feb 2019, 4:09 PM IST
ذرائع کے مطابق اس حملے میں جتنا بھی آر ڈی ایکس استعمال ہوا، اسے پاکستانی سرحد سے دراندازی کر کے لایا گیا۔ ذرائع کے حوالے سے اخبار نے بتایا ہے کہ پاکستان کی سرحد میں چل رہے دہشت گردانہ ٹریننگ کیمپوں میں دہشت گردوں کو جب ہندوستانی سرحد میں دھکیلا جاتا ہے تو انھیں آر ڈی ایکس کی بہت چھوٹی مقدار باریک کوئلے کے درمیان رکھ کر تھما دی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے بعد دہشت گرد جب سرحد پار کر کے اپنے ٹھکانوں پر پہنچتے ہیں تو وہ اپنے مقامی رابطوں اور سیل کے ساتھ مل کر دھماکے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ آر ڈی ایکس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے جانے کے لیے اسے کوئلے کے درمیان اس طرح ملا دیا جاتا ہے کہ جانچ میں اسے آسانی سے نہیں پکڑا جا سکتا۔
غور طلب ہے کہ جنوبی کشمیر میں بڑے پیمانے پر انگیٹھی استعمال ہوتی ہے، اس لیے کوئلے کی کھیپ آتی جاتی رہتی ہے۔ مقامی شہری عام طور پر پلاسٹک کی تھیلی یا بوری میں کوئلہ لے جاتے ہیں۔ اسی کے درمیان آر ڈی ایکس کو گوند میں لپیٹ کر چھپایا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سال 2016 کے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کے وقت ناردرن کمانڈ کی قیادت کر چکے لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا نے بھی کہا تھا کہ دھماکہ خیز مادہ ایک بار میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔ ماہرین کے مطابق آر ڈی ایکس حقیقی طور پر نمک جیسا ہوتا ہے اور اس کا رنگ بھی سفید ہوتا ہے۔ بعد میں اسے موبِل آئل یا کاربن میں رکھا جاتا ہے۔ جب دھماکہ ہوتا ہے تو اس دوران اس کا درجہ حرارت تقریباً 3300 ڈگری تک ہوتا ہے۔
Published: 19 Feb 2019, 4:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Feb 2019, 4:09 PM IST