قومی خبریں

رانی لکشمی بائی مجسمہ تنازعہ: دہلی ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد معاملہ ہوا حل، عید گاہ کمیٹی بھی راضی

ہائی کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ مسلم طبقہ کے مذہبی جذبات کو ذہن میں رکھ کر موتیا خان علاقہ میں واقع عید گاہ کی دیوار سے 200 میٹر فاصلے پر جھانسی کی رانی کا مجسمہ لگایا گیا ہے جو چاروں طرف سے گِھرا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی
دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی 

دہلی کے موتیا خان علاقہ کے شاہی عید گاہ کے قریب رانی لکشمی بائی کا مجسمہ لگانے سے جڑے ایک معاملے کا دہلی ہائی کورٹ نے گزشتہ پیر کو نپٹارہ کر دیا۔ 7 اکتوبر کو اس معاملے میں ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ مسلم فرقہ کے مذہبی جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے عید گاہ کی دیوار سے 200 میٹر کی دوری پر پارک کے کونے میں جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا مجسمہ لگایا گیا ہے۔ رانی لکشمی بائی کے مجسمہ کے چاروں طرف دیوار بھی بنائی گئی ہے تاکہ نماز پڑھنے والوں کو کوئی دقت نہ ہو۔ اس کے جواب میں پیر کو ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران عید گاہ انتظامیہ کمیٹی کے وکیل نے بھی کوئی اعتراض ظاہر نہیں کیا۔

Published: undefined

اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ نے 5 اکتوبر کو متعلقہ سرکاری ایجنسیوں کی ایک کمیٹی کو کہا تھا کہ آپ عید گاہ انتظامیہ کے لوگوں کو پارک لے جا کر دکھائیں کہ رانی لکشمی بائی کا مجسمہ کہاں ہے؟

دو دن قبل ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران دہلی میونسپل کارپوریشن نے بتایا تھا کہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا مجسمہ نصب کیا جا چکا ہے۔ اسے تین طرف سے کور کیا جائے گا۔ یہ مجسمہ عید گاہ کی دیوار سے دو سو میٹر کے فاصلے پر نصب کیا گیا ہے۔ جبکہ عید گاہ کمیٹی کے وکیل نے کہا تھا کہ موتیا خان پارک میں رانی لکشمی بائی کا مجسمہ لگ چکا ہے۔

Published: undefined

دراصل موتیا خان کے پاس رانی لکشمی بائی کا مجسمہ لگنے پر شاہی عید گاہ انتظامیہ کمیٹی نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہی عید گاہ کی زمین پر جاری تجاوزات پر روک لگائی جائے کیونکہ یہ ایک وقف املاک ہے۔ عرضی میں 1970 کے گزٹ کے نوٹیفکیشن کا ذکر کیا گیا تھا جس میں شاہی عید گاہ پارک کو قدیم املاک بتایا گیا تھا جو مغل دور میں بنا تھا۔ سنگل بنچ نے شاہی عید گاہ انتظامیہ کمیٹی کی عرضی خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ عید گاہ کی باؤنڈری کے چاروں طرف کا کھلا علاقہ اور عید گاہ پارک ڈی ڈی اے کی املاک ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined