آخر ایسی کیا بات ہے کہ جس کے کھل جانے کے خوف سے راجستھان کی وسندھرا راجے حکومت ایسا بل لے کر آ رہی ہے جس کے پاس ہونے کے بعد راجاستھان کے ممبران اسمبلی، وزراء اور ممبران پارلیمنٹ و افسروں کے خلاف پولس یا عدالت میں شکایت کرنا اور ان کی جانچ کرانا مشکل ہو جائے گا؟ یا پھر حکومت کسی میڈیا ہاؤس سے حساب برابر کرنا چاہتی ہے جو ایسا انتظام کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاملے کی رپورٹ اب عدالت کے دخل سے بھی نہیں درج ہو پائے گی۔ آئی پی سی اور سی آر پی سی کی دفعات میں کی گئی تبدیلی کی اطلاع اسمبلی کے ذریعہ باہر آئی جہاں پیر سے شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس میں اس آرڈیننس کو منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔
6 ستمبر 2017 کو اس آرڈیننس کو تیار کرنے سے پہلے حکومت نے اپوزیشن لیڈروں، ماہرین اور عوام کی رائے لینے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی۔ اسے قانون یا کسی اور محکمہ کی ویب سائٹ پر بھی نہیں ڈالا گیا جس سے کہ لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ چل پاتا اور وہ اپنی رائے یا مشورے دیتے ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسمبلی میں مکمل اکثریت کے زور پر بی جے پی اسے خاموشی کے ساتھ پاس کرا لینا چاہتی تھی اور میڈیا یا لوگوں کو اس کی بھنک بھی لگنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ بل کے حق میں دلیل دی جا رہی ہے کہ اسے ایماندار افسروں اور لیڈروں کو بچانے کے لیے لایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 2013 میں یو پی اے کے ذریعہ لائے گئے انسداد بدعنوانی بل میں ان باتوں کو رکھا گیا تھا۔ حالانکہ یہ بات درست ہے کہ ایسی کچھ باتیں اس قانون میں تھیں، لیکن وسندھرا راجے حکومت اس سے بہت آگے چلی گئی ہے اور ایسی چیزوں کو شامل کر لیا گیا ہے جس سے کہ میڈیا پر بری طرح سے ظلم کیا جا سکتا ہے۔
اس ترمیمی بل کے مطابق ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی، ججوں اور افسروں کو180دن تک ہر ممکن استثنائیت حاصل ہو جائے گی۔ ان لوگوں کے خلاف حکومت کی منظوری کے بغیر کوئی کیس درج نہیں کرایا جا سکے گا۔ اگر حکومت اجازت نہیں دیتی تو چھ مہینے یعنی 180 دنوں کے بعد صرف عدالت کے حکم سے ہی کسی کے خلاف رپورٹ درج کرائی جا سکتی ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اب عدالت بھی حکومت سے پہلے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی اور اس سے حکومت کی مرضی سب سے بالاتر ہو جانے کا خطرہ ہے۔ جب تک ایف آئی آر نہیں ہوتی پریس میں اس کی خبر بھی نہیں شائع ہو سکتی اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر یا شائع رپورٹ میں ان کا صرف نام لینے سے صحافیوں کو دو سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔اس مدت کے دوران خبر شائع کرنے سے قبل حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔ یعنی میڈیا کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی خبر نہیں شائع ہوگی۔ یہ سارے ضوابط سبکدوش افسروں پر بھی نافذ ہوں گے۔
اس آرڈیننس کی خبر افشا ہونے کے بعد میڈیا اور سول سوسائٹی کے لوگوں میں کافی ناراضگی ہے۔ وہ اس بات سے حیران ہیں کہ حکومت ایسا کوئی قدم اٹھانے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتیہے۔ سینئر صحافی شیکھر گپتا نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اس آرڈیننس کا موازنہ ’ریپبلک آف نارتھ کوریا‘ سے کیا ہے۔
پریس کو بھیجے گئے ایک خط میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے کہا ہے کہ اس پورے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ راج بھون نے قصداً اس آرڈیننس سے متعلق جانکاری لوگوں تک پہنچنے نہیں دی اور آرڈیننس سے متعلق باتوں کو ویب سائٹ پر اَپ ڈیٹ نہیں کیا۔ پی یو سی ایل نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس آرڈیننس کو واپس لیا جائے اور راجستھان اسمبلی میں اسے پاس نہیں کیا جائے۔ اس ادارہ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ آخر عدالت کی طاقت کو کم کر کے حکومت کیا چھپانے کی کوشش کر رہی ہے؟ انھوں نے یہ طے کیا ہے کہ وہ اس غیر قانونی آرڈیننس کے خلاف عدالت میں عرضی بھی داخل کریں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined