آزادی کے بعد غالباً پہلی بار ایسا موقع آیا ہے جب آر ایس ایس اور بی جے پی نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہندوتوا کی شروعات کرنے والے وی ڈی ساورکر نے انگریزی حکومت سے معافی مانگی تھی۔ یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکز کی مودی حکومت میں نمبر دو تصور کیے جانے والے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہی ہے۔ انھوں نے چرایو پنڈت اور دیا ماہرکار کے ذریعہ لکھی گئی کتاب ’ویر ساورکر- دی مین ہو کڈ ہیو پریوینٹیڈ پارٹیشن‘ کی رسم اجرا کے موقع پر کہا کہ ساورکر عظیم ہیرو تھے، ہیں اور رہیں گے۔ انھیں نظریات کے چشمے سے دیکھنے والوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
Published: undefined
راج ناتھ نے اپنے بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ساورکر کے بارے میں ایک جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ 1910 میں تاحیات جیل کی سزا کاٹ رہے ساورکر نے برطانوی حکومت کے سامنے رحم کی عرضی داخل کی تھی۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ انھوں نے گاندھی جی کے کہنے پر ایسا کیا تھا۔‘‘ لیکن راج ناتھ سنگھ یہاں کچھ تاریخی باتیں بھول گئے۔ وی ڈی ساورکر کو سیلولر جیل یعنی کالا پانی میں 4 جولائی 1911 کو بند کیا گیا۔ جیل جانے کے چھ مہینے کے اندر ہی ساورکر نے انگریزی حکومت کے سامنے رحم کی عرضی داخل کی۔ اس کے بعد 14 نومبر 1913 کو ساورکر نے ایک اور رحم کی عرضی داخل کی۔ جب کہ مہاتما گاندھی تو اس وقت جنوبی افریقہ میں تھے۔ گاندھی جی تو 9 جنوری 1915 کو ہندوستان لوٹے تھے۔ ایسے میں کب اور کہاں سے گاندھی جی نے ساورکر کو رحم کی عرضی داخل کرنے کو کہا ہوگا، یہ سمجھ سے قاصر ہے۔ حالانکہ ساورکر نے اس کے بعد 4 مزید رحم کی عرضیاں برطانوی حکومت کے سامنے داخل کیں، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ برطانوی حکومت کی ہر طرح سے خدمت کرنے کو تیار ہیں۔
Published: undefined
اتنی عرضیوں کے بعد 50 سال کی سزا پائے ہوئے ساورکر کی قید کو گھٹا کر پہلے 13 سال کیا گیا، اور پھر انھیں آزاد کر دیا گیا۔ ساورکر نے 10 سال سے بھی کم وقت پورٹ بلیئر واقع سیلولر جیل میں گزارا۔ اتنا ہی نہیں، برطانوی حکومت نے ساورکر پر یوں تو سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہونے کی پابندی لگائی تھی، لیکن انھیں ہندو مہاسبھا کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔
Published: undefined
راج ناتھ کے بیان پر معروف مورخ عرفان حبیب نے تلخ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہاں، ایک خاص رنگ میں رنگے تاریخ کو لکھنے کا چلن صحیح میں بدل رہا ہے، جس کی قیادت وزیر دفاع کر رہے ہیں۔ کم از کم انھوں نے یہ تو قبول کر لیا کہ ساورکر نے رحم کی عرضی لکھی تھی۔ ایسے میں اب کوئی دستاویزی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ نئے ہندوستان کی نئی تاریخ...۔‘‘
Published: undefined
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے تو راج ناتھ سنگھ پر تاریخ کو غلط شکل میں پیش کرنے کا الزام عائد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ لوگ بگڑی ہوئی تاریخ پیش کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ مہاتما گاندھی کو ہٹا دیں گے اور ساورکر کو راشٹرپتا (باپو) بنا دیں گے، جن پر مہاتما گاندھی کے قتل کا الزام تھا۔ جسٹس جیون لال کپور کی جانچ میں وہ شامل تھے۔‘‘
Published: undefined
سابق رکن پارلیمنٹ اور سینئر صحافی شاہد صدیقی نے بھی ساورکر سے متعلق راج ناتھ کے بیان کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اب ساورکر کی رحم کی عرضی اور بزدلی کے لیے گاندھی جی کو قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔
Published: undefined
سی پی آئی-ایم ایل کی پولٹ بیورو ممبر کویتا کرشنن نے بھی کہا ہے کہ راج ناتھ سنگھ بتائیں کہ کب اور کیسے گاندھی جی نے ساورکر کو رحم کی عرضی لکھی ور صلاح دی تھی۔ کویتا نے کہا کہ اب تو آپ یہ بھی کہیں گے کہ گاندھی جی نے خود ہی گوڈسے سے کہا تھا کہ وہ انھیں گولی مار دے۔
Published: undefined
کانگریس لیڈر شمع محمد نے بھی راج ناتھ سنگھ کے بیان پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی نے تو خود جیل میں برسوں گزار دیئے ہیں اور انھوں نے کبھی بھی انگریزوں کے سامنے رحم کی عرضی داخل نہیں کی۔ شمع محمد نے کہا کہ ’’راج ناتھ سنگھ جی کو اس جھوٹ پر شرم آنی چاہیے۔ گاندھی جی تو انگریزوں کے سامنے جھکنے کی جگہ جیل میں ہی رہنا پسند کرتے تھے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined