اتر پردیش اسمبلی الیکشن کے پیش نظر اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی نے ایس بی ایس پی (سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی) سربراہ اوم پرکاش راجبھر کے ساتھ مل کر کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل ایک محاذ تیار کیا ہے، لیکن اب یہ اتحاد ٹوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یو پی میں این ڈی اے کا حصہ رہ چکے راجبھر نے اویسی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ضرور ملایا، لیکن اب ایک بار پھر ان کا رجحان بی جے پی کی طرف ہوتا نظر آ رہا ہے۔
Published: undefined
دراصل آج صبح ہی اوم پرکاش راجبھر نے اتر پردیش بی جے پی صدر سوتنتر دیو سنگھ سے میٹنگ کی جس کے بعد سیاسی گلیاروں میں ہلچل شروع ہو گئی تھی۔ جب میڈیا کے افراد راجبھر سے یہ جاننے کو پہنچے کہ کہیں وہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد تو نہیں کر رہے، تو انھوں نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ سوتنتر دیو سنگھ کے ساتھ اخلاقی ملاقات ہوئی ہے اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ انھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’یو پی میں بی جے پی کو میں ہی نیست و نابود کروں گا۔‘‘ لیکن اس بیان کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ان کا رویہ بالکل بدلا ہوا نظر آ رہا ہے کیونکہ انھوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں۔
Published: undefined
دراصل میڈیا ذرائع کے حوالے سے خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ راجبھر نے بی جے پی کے سامنے کچھ شرطیں رکھ دی ہیں اور کہا ہے کہ بی جے پی اگر اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے ان شرائط کو مان لے تو وہ اتحاد کر سکتے ہیں۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ سوتنتر دیو سنگھ اور راجبھر کی ملاقات کے بعد ہی بی جے پی کے ریاستی نائب صدر دیاشنکر سنگھ نے بیان دیا تھا کہ دونوں کی ملاقات مثبت رہی اور دونوں پارٹیاں 2022 کا اسمبلی الیکشن ساتھ مل کر لڑیں گی۔
Published: undefined
بہر حال، راجبھر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بی جے لیڈران ایس بی ایس پی سے اتحاد کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور بی جے پی جانتی ہے کہ حکومت بنانے کے لیے ایس بی ایس پی کا ساتھ ضروری ہے۔ راجبھر نے ساتھ ہی اپنے شرائط کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اگر پسماندہ طبقہ کی ذات پر مبنی مردم شماری کرانے، سماجی انصاف کمیٹی کی رپورٹ کو نافذ کرنے، خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن دینے، یکساں لازمی و مفت تعلیم، گھریلو بجلی کا بل معافی و پسماندہ طبقہ کا وزیر اعلیٰ بنانے کی شرط ماننے کا اعلان کر دے تو ہم بی جے پی سے اتحاد قائم کرنے پر غور کریں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز